نے خود اپنی نبوت کا اعلان کیا ہے۔ نیز مرزاقادیانی اور ان کی نبوت پر اپنے ایمان کا اعلان کیا ہے۔ بلا کسی تردد کے غیر مسلم اور مرتد قرار دیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ زیر نظر مقدمے میں فریقین کے درمیان شادی اسلام میں قطعی پسند نہیں اور قرآن پاک اور حدیث کی تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ کیونکہ فریقین نہ صرف مختلف نظریات کے حامل ہیں۔ بلکہ ان کے عقائد بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور یہ بات اس رشتے کے لئے سم قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ جیسا کہ میںپہلے واضح کرچکا ہوں۔
اسلام میں کسی مسلمان کے لئے جنس مخالف کے ساتھ شادی کے سلسلے میں متعدد پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور کسی بھی صورت میں کوئی مسلمان عورت کسی غیر مسلم سے جائز شادی نہیںکرسکتی۔ جن میں عیسائی، یہودی یا بت پرست شامل ہیں اور ایک مسلمان عورت اور غیر مسلم مردکا نکاح اسلام کی نظر میں غیر مؤثر ہے۔
اندریں حالات میں یہ قرار دیتا ہوں کہ اس مقدمے کے فریقین کے درمیان شادی اسلامی شادی نہیں۔ بلکہ یہ سترہ سال کی ایک مسلمان لڑکی کی ساٹھ سال کے ایک غیر مسلم (مرتد) کے ساتھ شادی ہے۔ لہٰذا ’’یہ شادی غیر قانونی اور غیر مؤثر ہے۔‘‘
مندرجہ بالا امور کے پیش نظر مسئلہ نمبر۳،۴،۶،۷ اور ۸ ساقط ہو جاتے ہیں اور ان پر غور کی ضرورت نہیں۔
مندرجہ بالا بحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدعیہ جو ایک مسلمان عورت ہے کی شادی مدعا علیہ کے ساتھ جس نے شادی کے وقت خود اپنا قادیانی ہونا تسلیم کیا ہے اور اس طرح جو غیر مسلم قرار پایا ہے غیر مؤثر ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ مدعیہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مدعا علیہ کی بیوی نہیں۔
تنسیخ نکاح کے بارے میں مدعیہ کی درخواست کا فیصلہ اس کے حق میں کیا جاتا ہے اور مدعا علیہ کو ممانعت کی جاتی ہے کہ وہ مدعیہ کو اپنی بیوی قرار نہ دے۔ مدعیہ اس مقدمہ کے اخراجات بھی وصول کرنے کی حق دار ہے۔
یہ فیصلہ ۱۳؍جولائی کو جناب شیخ محمد رفیق گریجہ کے جانشین جناب قیصر احمد حمیدی جوان کی جگہ جیمس آباد کے سول اور فیملی کورٹ جج مقرر ہوئے ہیں۔ کھلی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔