ساتھ مدعیہ کا نکاح تاریخ ارتداد سے مدعا علیہ سے فسخ ہوچکا ہے اور اگر مدعا علیہ کے عقائد کو بحث مذکورہ بالا کی روشنی میں دیکھا جاوے تو بھی مدعا علیہ کے ادّعا کے مطابق مدعیہ یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ رسول اﷲﷺ کے بعد کوئی امتی نبی نہیں ہوسکتا اور کہ اس کے علاوہ جو دیگر عقائد مدعاعلیہ نے اپنی طرف منسوب کئے ہیں وہ گو عام اسلامی عقائد کے مطابق ہیں۔ لیکن ان عقائد پر وہ انہی معنوں میں عمل پیرا سمجھا جاوے گا جو معنی مرزاقادیانی نے بیان کئے ہیں اور یہ معنی چونکہ ان معنوں کے مغائر ہیں جو جمہور امت آج تک لیتی آئی۔ اس لئے بھی وہ مسلمان نہیں سمجھا جاسکتا ہے اور وہ ہر دو صورتوں میں مرتد ہی ہے اور یہ مرتد کانکاح چونکہ ارتداد سے فسخ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ڈگری بدیں مضمون بحق مدعیہ صادر کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ ارتداد مدعا علیہ سے اس کی زوجہ نہیں رہی۔ مدعیہ خرچہ مقدمہ بھی ازاں مدعا علیہ لینے کی حق دار ہوگی۔
اس ضمن میں مدعا علیہ کی طرف سے ایک سوال یہ پیدا کیاگیا ہے کہ ہر دو فریق چونکہ قرآن مجید کو کتاب اﷲ سمجھتے ہیں اور اہل کتاب کا نکاح جائز ہے۔ اس لئے بھی مدعیہ کا نکاح فسخ قرار نہیں دینا چاہئے۔ اس کے متعلق مدعیہ کی طرف سے یہ کہاگیا ہے کہ جب دونوں فریق ایک دوسرے کو مرتد سمجھتے ہیں تو ان کو اپنے عقائد کی رو سے بھی باہمی نکاح قائم نہیں رہتا۔ علاوہ ازیں اہل کتاب عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے نہ کہ مردوں سے بھی، مدعیہ کے دعویٰ کی رو سے بھی مدعا علیہ مرتد ہوچکا ہے۔ اس لئے اہل کتاب ہونے کی حیثیت سے بھی اس کے ساتھ مدعیہ کا نکاح قائم نہیں رہ سکتا۔ مدعیہ کی یہ حجت وزن دار پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس بناء پر بھی وہ ڈگری پانے کی مستحق ہے۔
مدعا علیہ کی طرف سے اپنے حق میں چند نظائر قانونی کا بھی حوالہ دیاگیا تھا۔ ان میں پٹنہ اور پنجاب ہائیکورٹ کے فیصلہ جات کو عدالت عالیہ چیف کورٹ نے پہلے واقعات مقدمہ ہذا پر حاوی نہیں سمجھا اور مدراس ہائیکورٹ کے فیصلہ کو عدالت معلیٰ اجلاس خاص نے قابل پیروی قرار نہیں دیا۔ باقی رہا عدالت عالیہ چیف کورٹ بہاولپور کا فیصلہ بمقدمہ مسمات جندوڈی بنام کرم بخش اس کی کیفیت یہ ہے کہ یہ فیصلہ جناب مہتہ اور دھوداس صاحب جج چیف کورٹ کے اجلاس سے صادر ہوا تھا اور اس مقدمہ کا صاحب موصوف نے مدارس ہائیکورٹ کے فیصلہ پر ہی انحصار رکھتے ہوئے فیصلہ فرمایا تھا اور خود ان اختلافی مسائل پر جو فیصلہ مذکور میں درج تھے کوئی محاکمہ نہیں فرمایا تھا۔ مقدمہ چونکہ بہت عرصہ سے دائر تھا۔ اس لئے صاحب موصوف نے اسے زیادہ عرصہ معرض