ذہنی کیفیتیں جذبہ رواداری کو جنم دے سکتی ہیں۔ جیسا کہ گبن نے کہا ہے: ’’ایک رواداری اس فلسفی کی ہے جو تمام مذاہب کو سچا سمجھتا ہے۔ ایک اس مؤرخ کی ہے جو سب کو یکساں جھوٹا خیال کرتا ہے اور ایک اس سیاسی شخص کی ہے جو دوسرے طرز ہائے فکر کے معاملہ میںمحض اس لئے روادار واقع ہوا ہے کہ وہ خود تمام نظریوں اور مسلکوں سے لاتعلق رہا ہے۔ پھر ایک رواداری اس کمزور شخص کی ہے جو محض اپنی کمزوری کی بنا پر ہر اس اصول یا شخصیت کی ہر قسم کی توہین برداشت کرلیتا ہے جس کو وہ عزیز رکھتاہے۔‘‘
’’ظاہر ہے کہ رواداری کی یہ اقسام کوئی اخلاقی قدروقیمت نہیں رکھتیں۔ بلکہ اس کے برعکس یہ اس شخص کے روحانی افلاس کا پتہ دیتی ہیں جو ان میں مبتلا ہو۔ سچی رواداری وسعت قلب ونظر کا نتیجہ ہوتی ہے۔ رواداری تو اس شخص میں ہوتی ہے جو روحانی طور پر مضبوط ہو اور جو اپنے عقائد کی حدود کی سختی سے حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے لئے مختلف قسم کے عقائد کو بھی برداشت کرتا ہے۔ بلکہ وقعت کی نظر سے دیکھتا ہو۔ ہمارے رواداری کے مبلغین کی بوالعجبی ملاحظہ فرمائیے کہ وہ ان لوگوں کو غیر روادار بتاتے ہیں جو اپنے عقائد کی حدود کا تحفظ کررہے ہوں۔ وہ غلط طور پر اس رویہ کو اخلاقی گھٹیا پن کی ایک علامت سمجھتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ رویہ فی الاصل تحفظ ذات کے نظریہ پر مبنی ہے۔ اگر ایک گروہ کے افراد فطری وجدانی یا عقلی دلائل پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے معاشرہ کی ہیئت اجتماعی کو خطرہ ہے تو ان کی مدافعانہ روش کی جانچ پرکھ تحفظ ذات کے فطری اصول کے معیار کو سامنے رکھ کر ہونی چاہئے۔ اس سلسلے کے ہر قول وفعل کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتے وقت تحفظ زندگی کی اس قدر کو سامنے رکھنا ہوگا جو اس میں پنہاں ہوتی ہے۔ ایسے معاملہ میں سوال یہ نہیں ہوتا کہ ایک فرد یا ایک قوم کا کسی شخص کو کافر قرار دینے کا رویہ اخلاقاً اچھا ہے یا برا۔ بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ رویہ اس کی ہیئت اجتماعیہ کے لئے زندگی بخش ہے یا تباہ کن۔‘‘
علامہ اقبالؒ کی اس پکار کے بعد میں آپ کو سوچ کے حوالے کرتا ہوں۔ یہ پکار آپ کے ضمیر کے دروازے پر ایک دستک ہے اور آپ کی غیرت ایمانی کے لئے ایک دعوت ہے۔ قادیانی امت کو آپ نے موقع دیا تو پھر پاکستان رہوڈیشیا بن جائے گا اور اگر آپ نے ان کی سامراجی سازشوں کے جال کاٹ دئیے تو پھر پاکستان نہ صرف پاکستان بنے گا بلکہ ہمارا مشرقی حصہ ہمیں واپس مل جائے گا۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان کا سالمیت یا قادیانی گروہ کو تحفظ۔