دعویٰ میں دھوکا کھایا ہے۔ مگر بقول خلیفہ المسیح ثانی (جن کی شان میں مرزاقادیانی کا الہام ہے فرزند دلبند گرامی ارجمند مظہر الاول والآخر مظہر الحق والعلاء لکان اﷲ نزل من السماء (تذکرہ ص۱۳۹) مرزاقادیانی کو ہی اپنے دعویٰ میں غلطی لگی رہی۔ فرماتے ہیں۔ ’’نبوت کا مسئلہ آپ پر ۱۹۰۰ء یا ۱۹۰۱ء میں کھلا ہے اور چونکہ ایک غلطی کا ازالہ ۱۹۰۱ء میں شائع ہوا ہے۔ جس میں آپ نے اپنی نبوت کا اعلان بڑے زور سے کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۹۰۱ء میں آپ نے اپنے عقیدہ میں تبدیلی کی ہے… ۱۹۰۱ء سے پہلے کے وہ حوالے جن میں اپنے نبی ہونے سے انکار کیا ہے۔ اب منسوخ ہیں اور ان سے حجت پکڑنی غلط ہے۔‘‘
(حقیقت النبوۃ ص۱۲۱)
میاں صاحب کی تحریر سے انکار کرنا گویا کہ: ’’کان اﷲ نزل من السمائ‘‘ خدا کی بات سے انکار کرنا ہے۔ معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ نبوت کا دعویٰ نہیں۔ بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدائے تعالیٰ کے حکم سے کیاگیا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۲۱،۴۲۲، خزائن ج۳ ص۳۲۰)
یہ دعویٰ خدا کے حکم سے نہ تھا؟ ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔‘‘
(بدر مورخہ۵؍مارچ ۱۹۰۸ئ، ملفوظات ج۱۰ ص۱۲۷)
ثابت ہوا خدا کے حکم سے نہیں۔ پس مرزاقادیانی کو اپنے دعویٰ میں غلطی لگی رہی۔ اپنے مسیح موعود ہونے کے الہام کو تو بارہ سال تک نہ سمجھے اور نبوت کے الہام کو تیئس سال نہ سمجھے۔ پہلے محدث ہونے کا دعویٰ کیا اور بعد میں رسول ہونے کا۔ پس بعض کا یہ خیال درست ہے کہ اس نبی یا رسول یا محدث نے اپنے دعویٰ میں دھوکا کھایا ہے اور اپنے تمام دعاوی سے امان اٹھادیا ہے۔ مگر مرزاقادیانی دعویٰ نبوت کرنے میں مجبور تھے۔ کیونکہ مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک خطبہ میں آپ کو نبیوں کی صف میں کھڑا کر کے آیت ’’لا نفرق بین احد من رسلہ‘‘ آپ پر چسپاں کردی۔ (حقیقت النبوۃ ص۱۲۴)
اگرچہ آپ نے اس خطبہ کو پسند فرمایا۔ مگر تاہم ۱۹۰۰ء یعنی ایک سال کامل اس سوچ میں رہے کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی غلطی کا ازالہ شائع کروں یا اپنی کا۔ آخر کار ۱۹۰۱ء میں آپ نے دعویٰ نبوت کردیا۔ آپ خود مدت العمر اپنی نبوت سے انکار کرتے رہے اور مسیح موعود ہی رہے۔ مگر اب اگر کوئی ان کی نبوت سے ایک منٹ کے لئے بھی انکار کرے تو وہ پکا کافر بن جاتا