ہے۔ ’’وجیھاً فی الدنیا والآخرۃ ومن المقربین۰ ویکلم الناس فی المہد وکھلا ومن الصالحین… ویعلمہ الکتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل ورسولاً الیٰ بنی اسرائیل‘‘ اس پیش گوئی وبشارت میں سے ہم صرف ایک حصہ آیات کو پیش کرتے ہیں۔ یعنی ’’ویعلمہ الکتاب والحکمۃ والتورات والانجیل‘‘ اور اس کے معنی پرغور کرتے ہیں۔
۱… واضح ہو کہ اﷲتعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو ’’الکتاب والحکمۃ‘‘ اور ’’التورات‘‘ اور انجیل سکھلانے کا وعدہ کیا ہے۔ انجیل تو خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ ’’واٰتینہ الانجیل‘‘ اس لئے انجیل کا صحیح مطلب ومفہوم سکھلانا ضروری تھا۔ تا ایسا نہ ہو کہ کسی آیت کے مفہوم ومطلب سمجھنے میں مسیح کو دقت ہو۔ ہر ایک نبی پر جو کتاب نازل ہوتی ہے اس کا صحیح مطلب ومفہوم اﷲتعالیٰ ہی سکھلاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے سیدومولیٰ حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کو اﷲتعالیٰ ہی نے قرآن مجید کا صحیح مفہوم ومعانی ومطالب سکھلائے۔ ’’الرحمن علم القرآن‘‘ یعنی رحمان نے محمد رسول اﷲ کو قرآن سکھلایا، اور پھر فرمایا: ’’لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقراٰنہ… ثم ان علینا بیانہ (القیامۃ:۱۶ تا ۱۹)‘‘ یعنی قرآن مجید کے معنی ومفہوم کو کھول کر بتلانا بھی ہمارا ذمہ ہی ہے۔
۲… تورات حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کی نازل شدہ تھی۔ وہ اس لئے سکھلائے گا کہ وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا اور بنی اسرائیل کے پاس کتاب توریت تھی۔ مگر وہ غلط معنی کرنے اور ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ‘‘ کے عادی تھے اور ناحق پر جھگڑا کرنے والے تھے۔ پس اگر خود اﷲتعالیٰ مسیح کو تورات نہ سکھلاتا تو یہودی اس کو چٹکیوں میں اڑا دیتے، اور دوسرا یہ فائدہ تھا کہ مسیح نبی اﷲ ان لوگوں کے آگے زانوے شاگردی تہ نہ کرتے۔ جس کی طرف وہ رسول ہوکر آیا ہے اور اگر اﷲتعالیٰ اپنے نبی مسیح علیہ السلام کے لئے یہ ذلت بھی گوارا کر لیتا کہ وہ ایک کافر کی شاگردی کرے تو بھی اسمیں یہ نقص تھا کہ استاد جو چاہتا پڑھاتا۔ تمام علماء کی ہر ایک بات میں ایک جیسی تفہیم نہیں ہوتی۔ اس لئے ممکن تھا کہ وہ استاد ایک لفظ کا معنی کچھ پڑھاتا اور دوسرے علماء اس سے کچھ اور مراد لیتے اور مسیح نبی اﷲ ان سے بحث میں مغلوب ہو جاتے تو نبوت کی قلعی کھل جاتی۔ یا تورات کا کوئی مسئلہ بیان کرتے اور وہ غلط نکلتا تو بعد میں ندامت سے اپنی