انبیاء علیم السلام جو دنیا میں حق وصداقت کے سب سے بڑے علمبردار ہوتے ہیں۔ ان کا معیار حق گوئی تو سب سے اونچا ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کا سچائی سے صرف یہی تعلق نہیں ہوتا کہ یہ امر واقعہ ہے۔ لہٰذا اس کا اظہار ضروری ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ اس کے پہنچانے پر مامور ہیں۔ ’’فاصدع بما تؤمر‘‘ انہیں اس کی ہرگز پرواہ نہیں ہوتی کہ لوگ کیاکہیںگے۔ حکومت کیا خیال کرے گی اور قانون وسزا کے حلقے کیونکر حرکت میں آئیںگے۔ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اﷲ کے حکم کو اس کے بندوں تک پہنچانا ہے۔ حضرت ابراہیم ہی کو دیکھئے کہ جب توحید کی سچائی نے ایک مرتبہ دل میں گھر کرلیا تو پھر آگ کے الاؤ میں کود جانا پسند کیا۔ مگر اس سچائی سے دست بردار نہیں ہوئے۔
انبیاء کی سب سے بڑی اور موٹی پہچان ہی یہ ہے کہ حق کی تبلیغ میں وہ کتنے بے باک ہیں۔ کس درجہ جسور اور دلیر ہیں۔ کیونکہ حق کوشی اور حق شعاری ہی کی تکمیل کا دوسرا نام تو نبوت ہے۔ اگر ایک مدعی نبوت شخص اسی حق کو چھپاتا ہے جس کے پہنچانے پر وہ مامور ہے اور اسی سچائی کے اظہار سے خائف ہے۔ جس کی تبلیغ پر وہ خدا کی طرف سے مکلف ٹھہرایا گیا ہے تو اس مسخرے کو کون پیغمبر کہہ سکتا ہے۔ یہ مصلحت اندیش ہوسکتا ہے۔ مفاد پرست اور ابن الوقت ہوسکتا ہے۔ نبی ہرگز نہیں ہوسکتا۔
ایک مرتبہ جب مرزاقادیانی موت وہلاکت کی پیشین گوئیاں بانٹ رہے تھے اور ازراہ نبوت خود ہی ان کی تکمیل کے سامان بھی مہیا کر رہے تھے۔ مخالفین نے مسٹر ڈوئی کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا کہ انہیں اس بلیک میلنگ سے روکا جائے۔ مرزاقادیانی کو یہ معلوم ہوا تو اوسان کھو بیٹھے اور خواجہ کمال دین کی موجودگی میں نبوت سے دست بردار ہوگئے۔ آپ نے اقرار کیا کہ میں آئندہ اس ڈھنگ کی کوئی پیشین گوئی شائع نہیں کروںگا۔ جو کسی کی موت سے متعلق ہو اور تو اور مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم کو ایسے کلمات سے مخاطب نہیں کروںگا۔ جن سے ان کو اذیت پہنچے۔
یعنی آپ نے اﷲ میاں سے کہہ دیا کہ آئندہ ایسے الہامات نہ ڈسپیچ کئے جائیں۔ جن پر کوئی مجسٹریٹ گرفت کرے۔ فرمائیے یہ نبوت ہے! اس سے زیادہ بے یقینی اور خوف وبزدلی کی کوئی مثال ہوسکتی ہے۔ کیا ہمارے ادنیٰ رضاکار بھی غیرت وحمیت کی اتنی توہین برداشت کرسکتے ہیں۔
ختم شد!