ہیں۔ مرزائیوں نے سوچا ہوگا کہ اتنی بڑی تبدیلی سے متعلق اگر مرزاقادیانی کا کوئی الہام ان کی کتابوں میں سے نہ نکلا تو بڑی بھد ہوگی۔ لوگ کہیںگے کہ عجیب نبی ہے جو محمدی بیگم کے نکاح کا ڈھنڈورا تو چار دانگ عالم میں پیٹتا ہے۔ مگر ملک کے اس عظیم الشان بٹوارے کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔ جس کی وجہ سے ان کی امت کو بنے بنائے مرکز ہی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تلاش اور تفحص سے معلوم ہوا کہ الہام ’’داغ ہجرت‘‘ ہے۔ جس کی تاویل ہوسکتی ہے۔ اب غور فرمائیے پیشین گوئی جن معنوں میں خرق عادت اور غیر معمولی حقیقت ہوتی ہے۔ اس کی کوئی جھلک بھی اس میں پائی جاتی ہے۔ پہلے یہ تو بتائیے کہ نحو کی اصطلاح میں یہ کوئی جملہ بھی ہے۔ جس سے سننے والے کے علم میں کوئی اضافہ ہوتا ہے۔ یہ خبر ہے؟ انشاء ہے؟ کیا ہے؟ یہ داغ ہجرت کیسا ہے کون اٹھائے گا۔ کب اٹھائے گا۔ مومنوں اور عقیدتمندوں کو یہ زحمت گوارا کرنا پڑے گی یا دشمن اسے برداشت کریںگے۔ اس کے معنی کیا ہیں؟ اور اس میں پیشین گوئی کی کون اداپنہاں ہے۔ اگر ہر بے تکی بات ہر مہمل جملہ اور ہر خرافات کی قسم کی چیز پیشین گوئی ہوسکتی ہے تو پھر خود بے تکے پن، اہمال اور خرافات کے لئے ہمیں اور معنی تلاش کرنے پڑیںگے۔
نبوت سے دست برداری
سچائی جب اذعان وآگہی کے جھروکوں سے کسی کے دل پر اپنا پرتوڈالتی ہے تو خوف وہراس کے تاریک بادل یک قلم چھٹ جاتے ہیں اور ایک دم اطمینان وتسکین سے دل یوں بھرجاتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے بلائے ہوئے جادوگروں میں مقابلہ ہوتا ہے۔ جادوگر یہ کرشمہ دکھاتے ہیں کہ رسیاں اور لاٹھیاں ہو بہو سانپ معلوم ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا جاتا ہے کہ گھبراؤ نہیں تم ہی سربلند رہوگے۔ لاٹھی ہاتھ سے پھینکو، جادوگر یہ دیکھ کر کہ وہی لاٹھی ایک اژدھا کی صورت میں ان کے بنے ہوئے سانپوں کو دبوچ اور نگل رہی ہے۔ متحیر ہوتے ہیں، پھر ان پر یہ بات کھلتی ہے کہ جادو اور اعجاز میں جو فرق ہے۔ وہ جھوٹ اور سچائی کا ہے۔ حقیقت اور شعبدہ بازی کا ہے اور موسیٰ علیہ السلام واقعی اﷲ کا نبی ہے۔ جادو گر ہر گز نہیں۔ یہیں سے سچائی کی کارفرمائیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ دل اتنے مضبوط اور بے خوف ہوجاتے ہیں کہ ابھی ابھی چند لمحے پہلے جو جادوگر فرعون کی عزت واقبال کی دعائیں مانگ رہے تھے اور اس کے دبدبہ ورعب سے لز ررہے تھے۔ اب صاف صاف اس کے سامنے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے موسیٰ وہارون کے رب کو پہچان لیا۔ ’’اٰمنا برب ہارون وموسیٰ‘‘ فرعون دھمکی دیتا ہے کہ اگر تم نے یہ گستاخی کی تو میں تمہیں سخت ترین تکلیفیں پہنچاؤںگا۔ آڑے ترچھے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوںگا اور سولی پر ٹانگ دوںگا۔ ’’ولا صلبنکم فی جذوع النخل‘‘ ان کا ایک ہی جواب ہے۔ ’’لن نؤثرک علیٰ ماجاء نا من البینات‘‘ کہ جو سچائیاں دل کی گہرائویں تک اتر چکی ہیں۔ ان کو کیسے چھوڑ دیں۔ سزا کا تمہیں اختیار ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا ناکہ مرجائیںگے۔ بلا سے تمہارا یہ فیصلہ زندگی تک ہی اثر انداز ہے۔ اس کے بعد نہیں۔ ’’فاقض ماانت قاض انما تقضی ہذہ الحیوٰۃ الدنیا‘‘
سعید بن مسیبؒ کو گرفتار کر کے حجاج کے سامنے لایا جاتا ہے۔ وہ پوچھتا ہے کہو تمہیں کس انداز سے قتل کیا جائے۔ گویا تمہارے جرموں کی سزا بہر آئینہ قتل ہی ہے۔ اب تمہیں جو سوچنا ہے وہ صرف یہ ہے کہ قتل کی کس صورت کو پسند کرتے ہو۔ حضرت سعیدؒ چمک کر جواب دیتے ہیں کہ جو صورت تمہیں اﷲکے ہاں عذاب اور گرفت کی پسند ہے۔ اسی کے مطابق میرے ساتھ معاملہ کرو۔ کتنی دلیری اور بے خوفی ہے۔
اہل حق کا ہمیشہ یہی شیوہ رہا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ خود حق وصداقت میں اتنی لذت ہے کہ دنیا کی ہر ہر لذت اس کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ رونو ایک فلسفی ہے۔ اس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ پہلا نظام فلکی غلط ہے۔ اس کی پاداش میں اسے موت کی سزا سننا پڑتی ہے۔ جس کو وہ پورے استقلال سے سنتا ہے۔ سچ بولنا اور بات ہے اور سچائی کے اظہار میں مصائب کو برداشت کرنا اور بات۔ سچ کی راہ میں مصائب جھیلنے ہی سے یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ دل میں اس کے ساتھ وابستگی کا کیا عالم ہے۔ ایک عام انسان، سچائی اورجھوٹ کے ساتھ کوئی اخلاقی قدر وقیمت یا حکم وابستہ نہیں کرتا۔ بلکہ یہ سمجھتا ہے کہ اصلی شے کامیابی وکامرانی ہے اور یہ دونوں اس کے حصول کے محض مختلف ذریعے ہیں۔ کبھی سچائی سے کام نکلتا ہے اور کبھی اس کو قربان کر کے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ لیکن ایک صداقت شعار انسان سچائی کو ذریعہ ووسیلہ نہیں سمجھتا۔ بلکہ مقصد وغایت قرار دیتا ہے۔ اور یہی سچے اور جھوٹے انسان میں حقیقی فرق ہے۔ کیونکہ جھوٹا انسان بھی کبھی کبھی سچ بولتا ہے۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ مسلسل سچ بولتا چلا جائے۔ تاآنکہ اس کی راہ میں کوئی مصیبت برداشت کرنا پڑے۔ کسی امتحان یا آزمائش سے دوچار ہونا پڑے۔