لی۔ لیکن چند ہی صفحے پڑھنے کے بعد دیکھا کہ دل ودماغ قطعی بغاوت پر آمادہ ہیں۔ ناچاہا، ہمت ہاردی اور کتاب رکھ دی۔ صرف ایک دلچسپی البتہ ان میں ایسی ہے جو مطالعہ پر کبھی کبھی اکساتی ہے اور وہ ہے ان کا روایتی تضاد اور بے تکا پن، ایک ہی صفحے میں بسا اوقات یہ اتنی مختلف اور متضاد باتیں کہیںگے کہ آپ کا محظوظ ہونا قطعی ہے۔ زیادہ پر لطف حصہ ان کی کتابوں کا وہ ہوتا ہے جہاں یہ اپنے منصب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہاں دیکھنے کی چیز یہ ہوتی ہے کہ یہ ایک دم کتنا اونچا اٹھتے ہیں اور پھر کس تیزی سے زمین پر آرہتے ہیں۔ کبھی تو یہ گمان ہوتا ہے؟ نبوت کے تمام فرازوں کو انہوں نے ان کی آن میں طے کرلیا اور لاہوت کے کناروں کو چھو آئے اور کوئی فضیلت ایسی نہ چھوڑی جس کا انتساب انہوں نے اپنی طرف نہ کیا ہو اور کبھی عجزوانکسار کا یہ عالم کہ ایک ادنیٰ وحقیر مسلمان ہیں۔ جن میں کوئی تعلی اور ادعا نہیں۔ طبیعت کا یہ اتار چڑھاؤ پوری تحریرات میں چھایا ہوا ہے۔ جب نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ابن مریم کو بھی خاطرمیں نہیں لاتے۔ بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر منم محمد واحمد تک کا نعرہ مستانہ مارتے ہیں اور نہیں شرماتے۔ پھر جب اعتراضات سامنے آتے ہیں تو اپنا مقام اتنا گرالیتے ہیں کہ انہیں دائرہ اسلامیت میں رکھنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔ جھوٹا اور سچا ہونا تو خیر ایک الگ بحث ہے۔ یہاں اصلی مصیبت یہ ہے کہ مرزاقادیانی عمر بھر اس چکر سے نہیں نکلے کہ یہ کہاں کھڑے ہیں؟ ان کا دعویٰ کیا ہے؟ لوگ انہیں کیا سمجھیںاور کیا جانیں؟ ان کا کمال یہ ہے کہ اس کے باوجود یہ تضاد اور تناقض کو بڑی حکمت سے باہم سمودیتے ہیں۔ مثلاً ایک ہی وقت میں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ غیر تشریعی اور ظلی نبی ہیں اور یہ بھی فرماتے ہیں کہ مجازی نبی ہیں۔ حالانکہ ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے۔ غیر تشریعی اور ظلی نبوت کے یہ معنی ہیں کہ یہ نبوت کی ایک قسم ہے۔ جس میں ان کے عقیدے کے مطابق دعویٰ تو ہوتا ہے۔ الہامات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ مگر شریعت یا پیغام نہیں ہوتا اور مجازی کے معنی اس کے بالکل الٹ ہیں۔ یعنی غیر حقیقی ان دونوں میں جو فرق ہے اس کو یوں سمجھئے کہ مرزاقادیانی جب اپنے کو ظلی اور غیر تشریعی نبی قرار دیتے ہیں تو وہ اپنے لئے مراتب نبوت میں سے ایک ادنیٰ مرتبہ چن لیتے ہیں۔ لیکن جب وہ کہتے ہیں کہ ان کی نبوت مجازی ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ سرے سے منصب نبوت پر فائز ہی نہیں اور ان کو جو نبی کہا جاتا ہے تو وہ محض ایک پیرایہ بیان ہے۔ جیسے کوئی شخص اپنے گدھے کو ازراہ محبت اسپ تازی کہہ دے یا اسپ تازی کو شیر قرار دے تو اس سے اس کی حقیقت نہیں بدلے گی۔ گدھا، گدھا ہی رہے گا اور گھوڑا، گھوڑا ہی رہے گا۔ گویا غیر تشریعی نبی اور تشریعی نبی میں فرق مرتبہ کا ہے اور مجازی نبی اور نبی میں فرق نوعیت کا ہے۔ لیکن مرزاقادیانی کا یہ اعجاز ہے کہ