ہے۔ اسی طرح جو شخص بلاضرورت اپنی پرہیز گاری کے ڈھنڈورے پیٹتا ہے۔ وہ درحقیقت اس جھول کو دور کرنا چاہتا ہے جو اس کی واقعی زندگی میں پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی ہماری زندگی کی ایک ایک حرکت ایک ظہور نپے تلے نظام کے تابع ہے جو ہمارے باطن میں کارفرما ہے۔ اس اصول کو سامنے رکھئے اور سردست مرزاقادیانی کی ایک حرکت کا نفسیاتی جائزہ لیجئے۔ آپ کی کتاب ہے (نورالحق ص۱۵۸ تا۱۶۲، خزائن ج۸ ص۱۵۸ تا ۱۶۲) اس میں پادری عمادالدین کے خرافات کا جواب مندرج ہے۔ ہم جواب کی اہمیت پر غور کئے بغیر جو ٹکڑا غوروفکر کے لئے آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک جگہ بھنا کر آپ نے پادری عمادالدین کو ملعون قرار دینا چاہا ہے۔ ہم اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے اور اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ عربی اور اردو میں اس کے معنوں میں کیا اختلاف ہے جو چیز غور طلب ہے وہ ملعون قرار دینے کی نوعیت ہے۔ آپ نے لعنت لعنت کی جو گردان شروع کی ہے تو ان کا نمبر پورے ایک ہزار تک جاپہنچایا ہے۔ یعنی کتاب میں ایک ہزار مرتبہ گن کر اور اس پر باقاعدہ نمبر ڈال کر لعنت کا لفظ زیب قرطاس فرمایا ہے۔ بتائیے نفسیات کے ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے اس حرکت کی آپ کیا توجیہ فرمائیںگے۔ یہ واضح رہے کہ موقع کی مجبوری سے علیہ اللعنۃ کہہ دینا یا یہ کہنا کہ اس پر ہزار لعنت ہے۔ یہ اور بات ہے ہم اس کے جواز ومواقع جواز پر نظر نہیں ڈالیںگے اور گن گن کر ہزار مرتبہ لعنت لعنت کی گردان کرنا بالکل شے دیگر ہے۔ یہ وہ حرکت ہے جو نفسیات کا دلچسپ موضوع بن سکتی ہے اور جس سے مرزاقادیانی کی نفسیات کا تجزیہ ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ لکھنے والے کی طبیعت میں گھٹیا پن ہے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ظرف عالی نہیں اور اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص دماغی توازن کھو بیٹا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ شخص جو رہنمائی کی پاکیزہ غرض سے آیا ہو اس کو تعصبات کے اعتبار سے ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے لئے تو یہ زیبا ہے کہ وہ بہت سنجیدہ، بہت اونچا اور متوازن ہو۔ اس کی باتوں اور تحریروں سے یہ مترشح ہونا چاہئے کہ اس کا دل ودماغ صحیح اور ٹھنڈا ہے۔ یہ جب خوش ہوتا ہے تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں اور جب بگڑتا ہے تو اس رکھ رکھاؤ اور سلیقے کے ساتھ کہ اس کے مرتبہ ومقام کو کوئی گزندنہ پہنچے اور دشمن انگاروں پر لوٹنے لگے اور مرزاقادیانی کی اس حرکت سے دشمن کو تکلیف تو کیا پہنچے گی البتہ وہ ان کی اس خفیف الحرکتی پر الٹا ہنسے گا کہ عجب مسخرے سے پالا پڑا ہے کہ جس کو گالی دینا بھی نہیں آتا گالی میں بھی اتنی جان تو ہو کہ اس کو ہزار مرتبہ دہرانا نہ پڑے۔