ذہن کا یہ قیاس صحیح ہو تو پھر کشتی کو کبھی ساحل تک نہیں پہنچنا چاہئے۔ جہاز کو کہیں بھی لنگر انداز نہیں ہونا چاہئے اور تیر کو کبھی ہدف تک نہیں پہنچنا چاہئے۔ اجرائے نبوت کے باب میں بھی ذہن نے یونہی سوچا۔ یاد رہے کہ نبوت ورسالت اﷲتعالیٰ کا ایک فیض ایسا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی رہنمائی کی جائے اور اسے ایسی راہوں پر ڈالا جائے جو اسے منزل تک پہنچادیں۔ قوموں کی زندگی میں ایسا مقام ہزاروں اور لاکھوں سالوں کے بعد بہر آئینہ ضرور آتا ہے۔ جب یہ راہیں منزل تک جاتی ہوئی صاف دکھائی دیتی ہیں۔ مزید براں انسانی زندگی کے مسائل ایسے ہیں جو تغیر وارتقاء کی مختلف منزلیں طے کرتے ہوئے بالآخر اس مرحلہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں اختلاف وتنوع کی رنگارنگی ختم ہو جاتی ہے اور مسئلہ کے تمام پہلو یا مضمرات نکھر کر سامنے آجاتے ہیں۔
ایک تمثیل
انسانی زندگی کی مثال ایک درخت کی طرح ہے جو پہلی منزل میں صرف ایک بیج ہے۔ ایک دانہ ہے، جسے دیکھ کر اس کے اندر کے مضمرات کا کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا۔ پھر جب اس کو زمین میں ڈالا جاتا ہے تو اس میں نشوونما کی صلاحیتیں بیدار ہونا شروع ہوتی ہیں۔ ابتداء صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک سوئی سی زمین کا سینہ چیر کر نکلتی ہے۔ پھر اس کے ساتھ ننھی ننھی کونپلوں کا اضافہ ہوتاہے۔ پھر پتیاں بنتی ہیں۔ رنگ وروپ نکھرتا ہے اور قد بڑھتا ہے۔ تاآنکہ ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ بیج کے تمام مضمرات پوری طرح ظاہر ہو جاتے ہیں اور آپ پکار اٹھتے ہیں کہ اب یہ پودا پورا پیڑ ہے۔ یہ آم ہے، یہ کھجور ہے۔ بلاشبہ اس کے بعد بھی اس میں تغیرات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن وہ تغیرات بالکل جزوی ہوتے ہیں۔ ان سے درخت کی اصلی فطرت متأثر نہیں ہوتی۔ یعنی آم وہی آم ہی رہتا ہے اور کھجور کے مزاج وخصوصیات میں بھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔
ٹھیک اسی طرح ہماری اجتماعی زندگی کا معاملہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے اس کا آغاز ہوا۔ پھر ہر ہردور میں اس کے خدوخال ایک خاص نقشے اور روپ میں ڈھلتے چلے گئے اور پھر ایک ایسی منزل آگئی جب دیکھنے والوں نے کہا کہ اب تہذیب وثقافت اور اخلاق وسیاست نے تغیر وترقی کا طویل سفر طے کرنے کے بعد وہ جگہ پالی ہے جہاں فی الحقیقت پہنچنا مقصود تھا۔ یہاں پہنچ کر یہ گاڑی یقینا رکنا چاہئے۔ کیونکہ اس سے آگے کوئی نیا اور بڑا سٹیشن ہی نہیں۔
جن جن اجتماعی الجھنوں سے ہمیں دوچار ہونا تھا۔ ان سے دوچار ہوچکے اور جو نئی الجھنیں پیش آسکتی ہیں۔ ان کا اندازہ ہے۔ اس لئے اب کسی نبوت کا انتظار نہیں جو صورتحال میں ایسا تغیر پیدا کردے۔ جو خلاف توقع ہو۔ ہدایت وصداقت کے تقاضے مکمل ہوچکے اور گمراہیاں بھی