ایک یہ ہے کہ اس کے معنی بہادر وشجاع کے ہیں۔ پہلا استعمال حقیقی ہے اور دوسرا مجازی۔
ایک جاننے کی بات
یہاں یہ بات جاننے کی ہے کہ کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنوں میں استعمال کرتے وقت مجازی معنوں کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ بخلاف مجاز کے کہ اس میں تنہا مجازی معنی ہی پائے جاتے ہیں۔ جیسے شیرکہ یہ جہاں ایک درندہ ہے۔ بہادر اور شجاع بھی ہے۔ لیکن جب اس کا اطلاق کسی انسان پر ہوگا تو اس کے معنی صرف بہادر کے ہوںگے حقیقی شیر کے نہیں۔ اس خیال سے خاتم النبیین کے معنی اگر حقیقی لئے جائیں تو اس میں یہ خوبی ہوگی کہ فضیلت کے معنی ازخود اس میں آجائیںگے۔ بخلاف مجاز کے کہ اس میں ختم نبوت کی وہ تعبیر نہ آسکے گی۔ جس کی تائید قرآن وحدیث اور لغت وادب کے حوالوں سے ہوتی ہے۔ پھر مجازی معنی وہاں مراد ہوتے ہیں۔ جہاں حقیقت متعذر ہو اور جہاں یہ حال ہو کہ حقیقت کی تائید میں قرائن ہی نہیں۔ شواہد ودلائل کا ایک انبار ہو۔ جیسا کہ آپ دیکھ چکے، وہاں مجازی معنوں کے لئے کوئی وجہ جواز ہی پیدا نہیں ہوتی۔
حضرت عائشہؓ کا قول
درمنثور کے حوالہ سے حضرت عائشہؓ کا ایک قول پیش کیاجاتا ہے کہ: ’’قولوا خاتم النبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ‘‘ {تم خاتم النبیین تو کہو۔ لیکن یہ نہ کہو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔}
جواب یہ ہے کہ کیوں نہ اس کا صحیح محمل تلاش کیا جائے۔ جب ختم نبوت اور لا نبی بعدی، ایک مضبوط سلسلہ کی دوکڑیاں ہیں۔ جس کا متعدد پیرایہ ہائے بیان سے اثبات ہوچکا تو اس کے معنی قطعی ان کے منافی نہیں ہوسکتے۔ بات واضح ہے حضرت عائشہؓ چونکہ اس حقیقت سے آگاہ تھیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لانے والے ہیں۔ اس لئے وہ احادیث کے اطلاق میں اتنی سی گنجائش چاہتی ہیں کہ ان کی آمد پر کوئی اثر نہ پڑے اور اس کا ثبوت یہ حدیث ہے جو ان سے مرفوعاً مروی ہے۔ ’’عن عائشۃؓ عن النبیﷺ انہ قال لا یبقی بعدہ من النبوۃ الا المبشرات قالوا یارسول اﷲ ما المبشرات قال الرؤیا الصالحۃ یرالمسلم او یری لہ (مسند احمد)‘‘ {حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ آپؐ کے بعد بجز مبشرات کے نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ صحابہؓ نے پوچھا یہ مبشرات کیا ہیں۔ فرمایا صالح خواب جو مسلمان خود دیکھے یا کوئی اس سے متعلق دوسرا مسلمان دیکھے۔}