کلیت نہیں ہوتی۔ ہرہرفرد پر جس کا اطلاق بلامحابہ ہوسکے اور نہ وہ تعیین وخصوص ہی ہوتا ہے کہ جس سے دعویٰ ثابت ہوسکے۔ موضوع زیربحث میں جہاںجہاں اس انداز کے دھوکے اور گھپلے آئے ہیں۔ میں ان کی چہرہ کشائی نہیں کروںگا۔ کیونکہ ان کی وضاحت تو اپنے مناسب مقام پر ہوگی۔ سردست دوسری طرح کی مثالوں سے اس کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔
ایک مثال
متحدہ ہندوستان میں دوسیاسی تنظیمیں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لئے بڑی تیزی سے آگے برھ رہی تھیں۔ ایک کانگرس تھی۔ جس میں مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ پیش پیش تھے اور دوسری جانب مسلم لیگ تھی۔ جس کی عنان قیادت مرحوم قائداعظم محمدعلی جناح کے ہاتھ میں تھی۔ مولانا کے حامی یہ کہتے تھے کہ انگریزی دان حضرات کو اسلامی مزاج سے کیا مناسبت؟ اور لیگ سے وابستہ اس الزام کا یوں جواب دیتے تھے کہ یہ مانا، ابوالکلام آزاد بڑا دقیقہ رس عالم ہے۔ مگر یہ سیاسیات کا خارزار ہے۔ یہ قال اﷲ وقال الرسول کہنے والے کیا جانیں کہ یہاں کن کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے؟
استدلال کی غلطی دونوں جانب یہ تھی کہ یہ بحث کرنے والے یہ بھول جاتے تھے کہ متنازع فیہ کوئی عالم دین نہیں بلکہ ابوالکلام ہے۔ جس کی جامعیت اور سیاسیات میں بصیرت ورسوخ کالوہا بڑوں بڑوں نے مانا ہے۔ اسی طرح سوال صرف کسی مسٹر کا نہیں محمد علی جناح کا ہے جو ہوسکتا ہے۔ دین کی جزئیات کو اتنا نہ جانتا ہو جتنا ایک عالم دین جانتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے۔ اس کی شبانہ روز کی زندگی کا معمول اس انداز سے مختلف ہو۔ جو عام مسلمان کا ہوسکتا ہے۔ لیکن اتنا تو بہر آئینہ مسلم ہے کہ اس کی دعوت کی بنیاد دو قوموں کے جس عقیدہ پر تھی وہ عین اسلامی انفرادیت کا تقاضا تھا۔
غرض یہ نہیں کہ دونوں کو حق بجانب ٹھہرایا جائے یا دونوں کی غلطی پکڑی جائے۔ بتلانا یہ مقصود ہے کہ دونوں گروہوں کے طرز استدلال میں جو منطقی غلطی تھی وہ یہی تھی کہ ان کا دعویٰ تو مخصوص اور متعین تھا۔ لیکن دلیل کی بناوٹ میں عموم کو زیادہ دخل تھا۔ یعنی ثابت وہ یہ کرنا چاہتے تھے کہ ابوالکلام علم وفضل کی جلالت شان کے باوجود سیاسیات میں کورے ہیں اور دلیل وہ یہ لاتے تھے کہ عام علماء کے دائرہ معلومات میں سیاسیات کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح دوسرا فریق جواباً کوشش یہ کرتا تھا کہ قائداعظم کی دین سے متعلق عام لاعلمی کا غلط استعمال کرے۔