ایک باریک اور حکیمانہ فرق مناظر اور داعی میں یہ ہے کہ مناظرکی زد میں صرف دلائل واعتراضات کا ایک انبوہ ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ مخالف پر قابو پانے کے لئے ایک طرح کی اخلاقیت کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن داعی دلائل کو اتنا اہم نہیں سمجھتا۔ جتنا کہ اخلاقیت کو درخور اعتنا قرار دیتا ہے۔
یوں سمجھئے کہ مناظر کے سامنے صرف فن مناظرہ اور اس کے تقاضے ہوتے ہیں۔ وہ رشیدیہ کے ہر ہر حرف کی پابندی کا التزام کرتا ہے۔ لیکن اس کتاب کو پڑھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ جو اس کی لوح دل پر مرتسم ہے۔ اس کے باعکس ایک داعی یہ دیکھتا ہے کہ مخاطب میں رشد وہدایت کے دواعی کیونکر بیدار ہوسکتے ہیں۔ پھر اگر وہ محسوس کرتا ہے کہ یہاں دلائل کے پیچھے بھاگنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا تو وہ نفس مخاطب کا تعاقب کرتا ہے اور نقض ومعارضہ کی راہوں کو چھوڑ کر استدلال کی ایسی راہیں اختیار کرتا ہے جو سیدھی اس کی دل تک پہنچتی ہیں۔ حضرت ابراہیم کو دیکھئے کہ نمرود سے بحث کرتے وقت جب یہ دیکھتے ہیں کہ اس دلیل سے ’’ربی الذی یحیی ویمیت‘‘ میرا پروردگار وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے اس کی تسکین نہیں ہوتی… تو اس دلیل پر اس کو جو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس کا ازالہ نہیں فرماتے۔ بلکہ آسانی فہم کے لئے ایک اور مشاہدہ عبرت اس کے سامنے پیش فرمادیتے ہیں کہ اچھا یہ نہیں نہ سہی۔ اس دلیل پر غور کر لو۔
’’فان اﷲ یاتی بالشمس من المشرق فات بہا من المغرب‘‘ {اﷲ تو اپنی قدرت کاملہ سے آفتاب کو مشرق سے نکالتا ہے۔ تم بھی اگر اس کارخانہ پر قابو رکھتے ہو تو یہ سمت بدل دو۔}
ظاہر ہے دوسری دلیل پہلی دلیل سے کچھ قوی نہیں ہے اور نہ پہلی دلیل ایسی غیر واضح ہے کہ اس پر نمرود کے اعتراض کو صحیح سمجھا جائے۔ تاہم حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مناظرہ کی منطق سے پہلو تہی کی اور تفہیم کا دوسرا انداز اختیار کیا۔ ہم جو مسائل کے فہم میں یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے مناظرانہ اثرات سے دماغ کو پاک کر لیاجائے تو یہ بالکل وہی حقیقت ہے جسے قرآن ’’شہادت قلب‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ ’’ان فی ذٰلک لذکری لمن کان لہ قلب اوالقیٰ السمع وھو شہید‘‘ {اس میں یقینا نصیحت کی بات ہے۔ لیکن اس شخص کے لئے جس کے پہلو میں دل ہے یا جو توجہ سے سنتا ہے اوراس کا دل اس پر شاہد ہے۔}
کیونکہ اگر پہلے ایک رائے قائم کرلی گئی ہے تو پھر یہ ناممکن ہے کہ جانچ پرکھ کے