سوال یہ ہے کہ اگر مرزائیت ایسا ہی حقیر فتنہ ہے اور اس کا دورفی الواقعہ گذر چکا ہے تو ہم نے ’’الاعتصام‘‘ میں اس کے بارہ میں خواہ مخواہ کیوں مضامین لکھے اور کیوں بغیر کسی غرض ومقصد کے اب ان کو کتاب کی شکل میں شائع کیا جارہا ہے۔ اس اعتراض کے ہمارے پاس دو جواب ہیں۔
۱… اس لئے کہ دینی وعلمی اعتبار سے اگرچہ مرزائیت کے لئے مستقبل میں کوئی جگہ نہیں اور یہ مذہب اپنی عمر طبعی کو پہنچ چکا ہے۔ تاہم سیاسیات کی نئی کروٹوں نے ایک پیچیدگی ضرور پیدا کردی ہے اور وہ یہ کہ اس مسلک کو ماننے والے ایک معقول تعداد میں پاکستان میں موجود ہیں اور بظاہر پاکستان کے شہری بھی ہیں۔ لیکن ان کی سابقہ روایات، ان کا بے لوچ عقیدہ اور قادیان کا بھارت میں رہ جانا ایسے امور ہیں کہ ان کے پیش نظر اگر ان کی حیثیت ومؤقف سے متعلق ٹھیک ٹھیک فیصلہ نہ کیاگیا تو یہ پاکستان اور بھارت کی جنگ کی صورت میں خدانخواستہ سخت مضر ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے اور بھارت کی اکثریت بھی اس کی خواہاں نہیں۔ لیکن کوئی ملک بھی آج جنگ کو بالکل نظر انداز کر کے آئین کے بوقلموں تقاضوں سے عہدہ برآنہیں ہوسکتا۔ ’’الاعتصام‘‘ کے شائع شدہ مضامین میں ہم نے ان کے اس مؤقف کی تشریح کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ آئندہ آئین میں اگر انہیں اقلیت قرار دیا جائے تو اس پیچیدگی کا حل نکل آتا ہے۔ یہ مجموعہ انہیں مضامین پر مشتمل ہے۔
۲… اس سبب سے بھی اس موضوع پر قلم اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اب تک جو بحثیں اس پر ہورہی تھیں۔ ان کا انداز بالکل مناظرانہ اور سطحی قسم کا تھا۔ جو باوجود تردید کے وہی ذہن پیدا کرتا تھا۔ جو مرزائیت کا ہے۔ ہم نے اس صورتحال کا جائزہ لیا اور کچھ نئے زاویوں سے اس مسئلہ پر نظر ڈالی اور بحث وفکر کی جدید روش نکالی۔ جس سے قارئین کرام ان تمام مفسدوں سے بچ کر صحیح نتائج تک پہنچ سکتے ہیں۔ جو اتھلے مناظرانہ انداز بحث سے ابھرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک مرزائیت ایک خاص طرز استدلال کا نام ہے۔ مخصوص عقیدوں کا نہیں۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ دیکھنے میں ایک شخص ان کی تردید میں دلائل کا انبار لگارہا ہو۔ لیکن فی الحقیقت اس کے باوجود ذہن کی کیفیتوں کے اعتبار سے اس میں اور مرزائی میں کوئی فرق نہ ہو۔ ان مضامین کا مقصد اسی مرزائیت سے اس کے حامیوں اور مخالفوں کو نکالنا ہے اور دونوں کو یہ بتانا ہے کہ نبوت والہام کے تقاضے، تائید وتردید کے فرسودہ اسالیب سے قطعی مختلف اور غیر مفید ہیں۔