اور تسلیم کی جائے کہ اس نے مرزاقادیانی کو منتخب کر کے ایک نام بتایا تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ محمد (فداہ روحی) پر قرآن نامکمل نازل ہوا۔ اس میں ایک نام نہ تھا اور وہ نام مرزاقادیانی پر ظاہر کر کے قرآن کی تکمیل کی گئی اور یہ عقیدہ خلاف اسلام ہے۔ اس لئے کہ قرآن مکمل ہے اور اس میں کسی ترمیم یا اضافہ کی گنجائش نہیں۔ پس میرا استدلال یہ ہے کہ:
۱…
جن پیغمبروں کا ذکر خدا نے خود نہیں کیا۔ ان کا نام کوئی شخص بتانہیں سکتا۔ سوائے ازیں کہ خود خدا اس پر کوئی نام ظاہر کرے۔
۲…
اگر خدا کی مرضی اور خدا کے بتانے کے بغیر نام لے کر کسی رسول کی تخصیص کی اجازت ہوتی تو حضور سرور کائناتؐ ایسا کرتے۔ مگر ان کا ایسا نہ کرنا بتارہا ہے کہ خدا جس کو ظاہر نہ کرے۔ بندہ اس میں دخل نہیں دے سکتا۔
۳…
خدا قادر مطلق ہے اور وہ چاہے تو ہزاروں قرآن نازل کرسکتا ہے۔ مگر قدرت اور مشیت میں فرق ہے۔ مشیت ایزدی یہ ہے کہ قرآن شریف مکمل ہے اور یہ اسی صورت میں محفوظ رہے گا۔ اس میں تبدیلی ممکن نہیں نہ اس میں اضافہ ہی ممکن ہے۔
۴…
اگر اﷲ تعالیٰ بذریعہ الہام کسی ایسے نبی کی بعثت کی تصدیق کرے۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود نہیں تو وہ تکمیل قرآن الحکیم کے مرادف ہوگی اور یہ بات بھی تعلیم قرآن پاک کے خلاف ہے۔
پس اصولاً یہ ایمان رکھنا کہ دنیا بھر میں متعدد پیغمبر مبعوث ہوئے۔ جن سے ہندوستان بھی خالی نہیں رہا۔ لیکن کسی کا نام لے کر اس کو مخصوص بہ نبوت کرنا اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ حق عام افراد کو دیا جائے تو فتنہ کا ایک دروازہ کھل جاتا ہے اور انبیاء کی فہرست لامتناہی ہوجاتی ہے اور اگر اجماع ملت کو یہ حق دیا جائے تو اس کے لئے ووٹوں کی ضرورت لاحق ہوتی ہے اور انبیاء کا نام بھی کونسل کا ایک انتخاب بن جاتا ہے۔ یہ علم صرف خدا کو ہے اور رب العزت جن ناموں کو ظاہر کرنا چاہتا تھا ان کو ظاہرکرچکا اور اگرچہ مزید ناموں کا اظہار اس کی قدرت سے خارج نہیں۔ تاہم اس کی مشیت اور سنت یہ ہے کہ مزید نام ظاہر نہ کئے جائیں۔ لہٰذا کسی کا یہ کہنا کہ فلاں شخص بھی نبی تھا۔ بروئے قرآن الحکیم جائز نہیں۔ پس مرزاقادیانی کی تحریک کے خلاف میری دلیل یہ ہے۔
انیسویں دلیل
انہوں نے کرشن جی مہاراج کو نبی ظاہر کر کے خود ان کے اوتار ہونے کا دعویٰ کیا اور یہ