لوگ اس ہبہ کے مسئلہ کو محمدی بیگم سے مرزاقادیانی کے مطالبہ نکاح کا محرک ماننے میں شاید تأمل کریں۔ لہٰذا میں مرزاقادیانی کی ایک تحریر بطور ثبوت پیش کرتا ہوں۔ یہ تحریر عربی میں ہے لیکن اس کا ترجمہ درج ذیل ہے۔ یہ تحریر کتاب (آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۲، ۵۷۳، خزائن ج۵ ص۵۷۲) پر موجود ہے۔ وہو ہذا!
’’اﷲتعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی کہ اس شخص (احمد بیگ) کی بڑی لڑکی کے نکاح کے لئے درخواست کر اور اس سے کہہ دے کہ پہلے وہ تمہیں دامادی میں قبول کرے اور پھر تمہارے نور سے روشنی حاصل کرے اور کہہ دے کہ مجھے اس زمین کے ہبہ کرنے کا حکم مل گیا ہے۔ جس کے تم خواہش مند ہو۔ بلکہ اس کے علاوہ اور زمین بھی دی جائے گی اور دیگر مزید احسانات تم پر کئے جائیںگے۔ بشرطیکہ تم اپنی بڑی لڑکی کا مجھ سے نکاح کردو۔ میرے اور تمہارے درمیان یہی عہد ہے تم مان لو گے تو میں بھی تسلیم کرلوںگا۔ اگر تم قبول نہ کروگے تو خبردار رہو۔ مجھے خدا نے یہ بتلایا ہے کہ اگر کسی اور شخص سے اس لڑکی کا نکاح ہوگا تو نہ اس لڑکی کے لئے یہ نکاح مبارک ہوگا اور نہ تمہارے لئے اس صورت میں تم پر مصائب نازل ہوںگے۔ جن کا نتیجہ موت ہوگا۔ پس تم نکاح کے بعد تین سال کے اندر مر جاؤگے۔ بلکہ تمہاری موت قریب ہے اور ایسا ہی اس لڑکی کا شوہر بھی اڑھائی سال کے اندر مرجائے گا۔ یہ اﷲ کا حکم ہے۔ پس جو کرنا ہے کرلو۔ میں نے تم کو نصیحت کردی ہے۔ پس وہ تیوڑی چڑھا کر چلاگیا۔‘‘
الہام کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی کے نکاح کی صورت میں ہبہ کی اجازت دینے پر تیار تھے۔ اس کے علاوہ اس میں محمدی بیگم کے والد صاحب کے لئے اقرار کی صورت میں انعام واکرام کا لالچ بھی موجود تھا اور انکار کی صورت میں دھمکی بھی موجود تھی۔ لیکن تعجب ہے کہ احمد بیگ صاحب پر نہ لالچ کا اثر ہوا اور نہ تخویف کا، اور اس نے رشتہ دینے سے صاف انکار کر دیا۔
مجھے معلوم نہیں کہ اس انکار کی وجوہات کیا تھیں۔ لیکن ممکن ہے کہ محمدی بیگم چونکہ مرزاقادیانی کی بھانجی اور بھتیجی تھیں۔ لہٰذا احمد بیگ صاحب کو اس میں تکلیف محسوس ہوئی۔ علاوہ ازیں محمدی بیگم صاحبہ مرزاقادیانی کے سگے فرزند فضل احمدصاحب کی بیوی یعنی مرزاقادیانی کی بہو کی (ماموں زاد) بہن بھی تھیں۔ لہٰذا بہو کی بہن کا بہو کے خسر کے ساتھ نکاح شاید کسی کو بھایا نہ ہوگا۔