۱…
محمدی بیگم صاحب مرزاقادیانی کی بھانجی یعنی ہمشیرہ زادی تھیں۔ یہ صحیح ہے کہ محمدی بیگم صاحب کی والدہ مرزاقادیانی کی سگی ہمشیرہ نہ تھیں۔ بلکہ وہ مرزاقادیانی کی چچازاد بہن تھیں۔ تاہم چچا زاد بہن کی اولاد ہونے کی وجہ سے محمدی بیگم ان کی بھانجی ضرور تھیں۔
۲…
مرزاقادیانی کی چچی زاد بہن جو محمدی بیگم صاحبہ کی والدہ تھیں۔مرزاقادیانی کے حقیقی ماموں کے لڑکے سے بیاہی ہوئی تھیں۔ گویا وہ مرزاقادیانی کی بھاوجہ تھیں اور محمدی بیگم صاحبہ اس لحاظ سے مرزاقادیانی کی بھتیجی بھی ہوتی تھیں۔
رشتے اور بھی تھے۔ لیکن یہ دو رشتے قریب ترین تھے۔ یعنی یہ کہ محترمہ محمدی بیگم صاحبہ مرزاقادیانی کی ہمشیرہ زادی یعنی بھانجی اور برادر زادی یعنی بھتیجی بھی تھیں۔ لیکن تقاضائے انصاف یہ ہے کہ میں تسلیم کروں کہ شرعاً مرزاقادیانی ان سے نکاح کر سکتے تھے۔ لہٰذا بروئے دستور وعرف عام خواہ بھانجی اور بھتیجی سے مطالبہ نکاح عیوب کیوں نہ ہو شرعاً جو بات جائز ہے اس پر رشتہ داری کے نام سے انگشت اٹھانا خارج از بحث ہے۔
محمدی بیگم صاحبہ سے نکاح کا خیال مرزاقادیانی کو جس طرح سے پیدا ہوا وہ بھی قابل ذکر ہے۔ سنئے محمدی بیگم صاحبہ کے والد مرحوم کا اسم گرامی احمد بیگ صاحب تھا۔ ان کی ایک بہن تھیں جو محمدی بیگم کی پھوپھی ہوتی تھیں۔ اس خاتون کا شوہر عرصہ سے مفقود الخبر تھا۔ احمد بیگ صاحب نے چاہا کہ بہن کی جائیداد انہیں بذریعہ ہبہ مل جائے اور ان کی بہن کی مرضی بھی یہی تھی۔ لیکن مرزاقادیانی کی منشاء اور ان کی رضامندی کے سوا قانوناً ایسا ہو نہیں سکتا تھا۔ لہٰذا ان کو رضامند کرنے کے لئے احمد بیگ کی بیوی صاحبہ یعنی محمدی بیگم کی والدہ محترمہ مرزاقادیانی کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس ہبہ نامہ کے متعلق آپ کی رضامندی چاہی۔ مرزاقادیانی نے جواب میں فرمایا ہم استخارہ کرنے کے بعد اس کا فیصلہ کریںگے۔
کچھ عرصہ تک جواب کا انتظار کرنے کے بعد محمدی بیگم کے والد صاحب خود مرزاقادیانی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہبہ نامہ کا ذکر چھیڑا۔ مرزاقادیانی نے پھر استخارہ کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن ان کی اصرار پر اسی وقت حجرہ میں تشریف لے گئے اور استخارہ کیا۔ مگر جواب میں جو وحی نازل ہوئی اس میں آپ کو ہدایت کی گئی کہ آپ محمدی بیگم کا رشتہ طلب کریں اور اگر یہ رشتہ مل جائے تو سائل کی امداد کریں۔ ورنہ ہرگز اس کی امداد نہ کریں۔ اس خیال سے کہ