ملاحظہ فرمائیے اپنے فرزند ارجمند مرزابشیر الدین محمود احمد صاحب کی شان میں مرزاقادیانی کی تحریر کتاب (البشریٰ ج۲ ص۲۱،۱۲۴) پر عربی میں یہ لکھی ہے کہ: ’’میرا پیدا ہونے والا بیٹا گرامی وارجمند ہوگا۔ اوّل وآخر کا مظہر ہوگا اور وہ حق اور غلبہ کا مظہر ہوگا۔ گویا اﷲتعالیٰ خود آسمان سے اترے گا۔‘‘
جب بیٹا خود اﷲ ہو تو پھر تابہ پدرچہ رسد اس کے بعد مرزاقادیانی کا اپنے اسی فرزند ارجمند کے متعلق یہ کہنا موجب حیرت نہیں کہ مرزاقادیانی کو الہام ہوا اور اس الہام میں ان کے لڑکے کی شان میں انہیں کسی کا یہ شعر سنایا گیا ؎
اے ختم رسل قرب تو معلومم شد
دیر آمدۂ زراہ دور آمدۂ
یہ شعر (تریاق القلوب ص۴۲، خزائن ج۱۵ ص۲۱۹) پر درج ہے۔ مرزابشیر الدین محمود احمد صاحب آج دنیا میں زندہ ہیں۔ محمد مصطفی (فداہ ابی) ان سے پہلے دنیا میں تشریف لائے تھے۔ اگر آج یہ کہا جائے کہ مرزابشیر الدین محمود احمد صاحب فخر رسل ہیں تو اس کے صاف معنی یہ ہوتے ہیں کہ آپ احمد مجتبیٰ (فداہ روحی) سے بھی بڑھکر ہیں اور جب بیٹے کی یہ شان ہے تو باپ کو صرف بروزی اور ظلی نبی ماننا کیسے ممکن ہے۔
لیکن مرزاقادیانی کی شان خود ان کی زبان سے سنئے۔ صاحب (البشریٰ ج۲ ص۶۱) پر لکھتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے انہیں بذریعہ الہام خبر دی کہ: ’’اے مرزا تو میرا سب سے بڑا نام ہے۔‘‘
پھر الہام ہوا: ’’خدا عرش پر تیری حمد کرتا ہے اور تیری طرف چل کر آتا ہے۔‘‘ یہ الہام کتاب (انجام آتھم ص۵۵، خزائن ج۱۱ ص۵۵) پر موجود ہے۔ کتاب (البشریٰ ج۲ ص۸۹) پر لکھا ہے کہ: ’’میں خدا کی باڑ ہوں۔‘‘
(انجام آتھم ص۷۸، خزائن ج۱۱ ص۷۸) پر آپ لکھتے ہیں کہ: ’’وما ارسلناک الا رحمۃ اللعالمین‘‘ ان (مرزاقادیانی) کی شان میں نازل ہوئی نہ کہ رسول امی لقب (فداہ ابی) کی شان میں اسی طرح (اربعین نمبر۲ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۳۵۱) پر لکھا ہے کہ رسول اﷲﷺ کو ’’داعی الیٰ اﷲ وسراج منیرا‘‘ کے خطاب دئیے گئے تھے۔ وپھر وہی دو مجھے (مرزاقادیانی کو) بھی عطاء ہوئے۔‘‘ پھر (خطبہ الہامیہ صفحات ۸،۱۹،۳۰،۳۵،۱۵۸،۱۷۱، خزائن ج۱۶ ص۵۲،۵۹،۲۵۹) پر لکھا ہے۔