طرز تحریر کے ثبوت میں پیش کرنا نہیں چاہتا۔ ورنہ مرزاقادیانی کی تحریر سے ایسے متعدد نمونے پیش کئے جاسکتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ ساری تحریر کا معیار ادب بہت ادنیٰ ہے اور ادبی لحاظ سے تحریر کی خوبی کا نمونہ کہیں شاذ ونادر ہی نظر آتا ہے۔
میں عرض کرچکا ہوں کہ قرآن پاک کے بے مثال طرز تحریر پر ایمان لانے کے بعد میں یقین نہیں کرسکتا کہ خدائے قرآن مجید نے جب ایک اور نبی تجدید دین محمد کے لئے بھیجا تو خدا (معاذ اﷲ) طرز تحریر کو بھول گیا یا عربی کی بجائے اردو کے اختیار کرتے ہی اس کی زبان میں فرق آگیا۔ لیکن یہاں تو عربی بھی غلط ہے۔
شاید کہا جائے کہ ادبی چٹخاروں سے مذہب کو کیا واسطہ۔ لہٰذا میں پھر عرض کروںگا کہ قرآن پاک نے جب ہمارے مذہب کی بناء ہی اس بات پر رکھی ہے کہ زبان کو معیار صداقت مذہب قرار دے کر اس کا دعویٰ کیا ہے کہ اس کی زبان لاجواب ہے تو اب کسی وجہ سے اس کی اہمیت کو گھٹانا قرآن پاک کے ایک ایسے اصول کو نظر انداز کرنا ہے جو خدائے قرآن الحکیم نے مدعیان نبوت کی تکذیب یا تصدیق کے لئے ہمیں عنایت کیا ہے۔
اگر مرزاقادیانی کا دعویٰ یہ نہ ہوتا کہ ان کی زبان کا ذمہ وار بھی خود خدا ہے تو شاید اس اعتراض کی اہمیت کچھ کم ہوجاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ مرزاقادیانی بہ بانگ دہل کتاب (نزول المسیح ص۵۶، خزائن ج۱۸ ص۴۳۴) پر فرماتے ہیں: ’’یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ میں خاص طور پر اﷲتعالیٰ کی اعجاز نمائی کو انشاء پردازی کے وقت بھی اپنی نسبت دیکھتا ہوں۔ کیونکہ جب میں عربی میں یا اردو میں کوئی عبارت لکھتا ہوں تو میں محسوس کرتا ہوں کہ کوئی اندر سے مجھے تعلیم دے رہا ہے۔‘‘
پھر (نزول المسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵) پر لکھتے ہیں: ’’ایسا ہی عربی فقرات کا حال ہے۔ عربی تحریروں کے وقت میں صدہا فقرات وحی متواتر کی طرح دل پروارد ہوتے ہیں اور یایہ کہ کوئی فرشتہ ایک کاغذ پر لکھے ہوئے وہ فقرات دکھادیتا ہے۔‘‘
غرض مرزاقادیانی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی تحریر اعجاز خداوندی کا ایک نمونہ ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی تحریر مبتذل ہوتی ہے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کی اسی محولہ بالا تحریر سے ظاہر ہے۔ جو اعجاز تحریر کے متعلق نزول المسیح سے لی گئی ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن کریم کے نازل کرنے والے خداوند قدوس نے مرزاقادیانی کو مبعوث یا مقرر فرماکر اعجاز تحریر دکھایا تو سوائے ازیں کہ اس کے لئے دعائے ہدایت کی جائے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔