ہوں۔ (تریاق القلوب ص۱۱، خزائن ج۱۵ ص۱۵۲) میں ہے۔ مجھے مخاطب کر کے فرمایا: ’’ثماینن حولا اوقریبا من ذالک اوتزید علیہ سنینا وتریٰ نسلا بعیدا‘‘ یعنی تیری عمر اسی برس کی ہوگی یا دوچار کم یا چند سال زیادہ اور تو اس قدر عمر پائے گا کہ ایک دور کی نسل کو دیکھ لے گا اور یہ الہام تقریباً پینتیس برس سے ہوچکا ہے اور لاکھوں انسانوں میں شائع کیاگیا اور (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۷، خزائن ج۲۱ ص۲۵۸) میں لکھتے ہیں۔ ’’میں خود اقرار کرتا ہوں کہ اس کو پیش گوئی مت سمجھو۔ اس کو بقول اپنے تمسخری سمجھ لو۔ اب میری عمر ستر برس کے قریب ہے اور تیس برس کی مدت گذر گئی کہ خداتعالیٰ نے مجھے صریح لفظوں میں اطلاع دی تھی کہ تیری عمر اسی برس کی ہوگئی اور یایہ کہ پانچ چھ سال زیادہ یا پانچ چھ سال کم۔ پھر اسی ضمیمہ کے اسی صفحہ پر چھ سات سطر بعد لکھتے ہیں اور جو الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ توچوہتر اور چھیاسی کے اندر اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر اسی (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۹۰) پر لکھتے ہیں۔ ’’میری عمر اس وقت تخمیناً ۶۷سال کی ہے۔‘‘ عبارات منقولہ بالا سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ الہام میں عمر ۷۴برس سے ۸۶کے اندر اندر مرزاقادیانی بتارہے ہیں۔
حامد: اچھا اب ذرا یہ بتائیں کہ مرزاقادیانی دنیا میں کب آئے۔
سعید: (کتاب البریہ ص۱۷۷، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷) میں اور (ریویو آف ریلجنز بابت جون ۱۹۰۶ء کے ص۲۱۹) پر اور (اخبار بدر ۳۰؍اگست ۱۹۰۴ء ص۵) پر اور (الحکم ۲۱و۲۸؍مئی ۱۹۱۱ء ص۴ کالم نمبر۱) پر اور (حیات النبی ج۱ ص۴۹) پر مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’میری پیدائش سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی۔‘‘
حامد: سکھوں کا آخری وقت کس سن میں ہوا؟
سعید: ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء سکھوں کا آخری وقت تھا۔
حامد: تو اس حساب سے مرزاقادیانی کی کل عمر ۶۰سال ہوئی۔ سعید: آپ کیوں حساب لگاتے ہیں۔ مرزاقادیانی ہی سے پوچھئے وہی بتارہے ہیں۔ (تحفہ گولڑویہ ص۹۳،۹۴، خزائن ج۱۷ ص۲۵۲) پر مرزاقادیانی لکھتے ہیں۔ ’’حضرت آدم علیہ السلام سے آنحضرتﷺ کی وفات مبارک تک کل مدت ۴۷۳۹سال ہے اور پھر (تحفہ گولڑویہ ص۹۵ حاشیہ) پر لکھتے ہیں۔ اس حساب کی رو سے میری پیدائش اس وقت ہوئی جب چھ ہزار میں سے گیارہ برس رہتے تھے اور (اخبار الحکم ۶؍جنوری ۱۹۰۸ء ص۶)پر ہے۔ الف ششم ۱۲۷۰ھ میں ختم ہوا تھا۔