خطبات دعوت ۔ مجموعہ بیانات ۔ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب |
بھائیو دوستو عزیزو ! بزرگو! ہر ایک اس طرح کی آواز لگارہا ہے اور ہر ایک کو اپنی آواز پر دعویٰ۔فرمانبردار و نافرمان اولاد کی سوچ : چنانچہ یہ بیچ والا جو بھائی تھا وہ اس ذہن کا تھا کہ بھائی اپنے بڑوں کی چال نہیں چھوڑنی چاہیے… اپنے بڑے جس طرح چلتے تھے …اور وہ جو کرتے تھے …ان کی راہ پر چلتے رہو… منزل تک پہنچ جاؤ گے… سیرت میں یہی ملتا ہے۔ لیکن وہ بیچ والا بھائی بے چارہ چھوٹا پڑتا تھا کہنے لگے بس بس تم بھی اسی خیال کے معلوم ہوتے ہو… اس سال تو بس وہی ہوگا جو ہم چاہتے ہیں اس سال کسی کے گھر کچھ نہیں جائے گا… اچھا بھائی میں تو رائے ہی دے سکتا تھا… مشورہ ہی سے دے سکتا تھا… بتا ہی سکتاتھا… بڑے تو تم ہی ہو تم جیسا کہو گے ویسا کریں گے۔ لیکن دیکھوعقلمندی کی بات یہ ہے جس راہ چلو اس راہ کا اینڈ دیکھ لیا کرو… جس راہ چلو اس راہ کی منزل دیکھ لیا کرو… کہ عقلمند وہ ہے جس کی نظر نتیجہ پر ہو… بہت ناداں ہے بہت ناداں ہے وہ جو وقتی حالت سے متاثر ہو کر اور وقتی جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی فیصلہ کرے اور پھر سر کھجاتے نہ بنے،…خیر بڑوں نے اس کی نہیں مانی… اور یہ طے کیا کہ ہمیشہ تو جب باغ اتارنے جایا کرتے تھے… تو سارے گاؤں کو پتہ چلتا تھا لوگ اپنے اپنے برتن… تھیلے کپڑے لے کر باغ پر بھی آجاتے تھے کہ حاجی جی کا باغ اتر رہا ہے… سیٹھ جی کا باغ اتر رہا ہے… چودھری جی کا باغ اتر رہا ہے …اور ہر سال کا معمول ہے … ہمارے بچے بھی کھائیںگے…… لیکن اس سال اس طرح باغ اتارنا ہے کہ کسی کو ہوا نہ لگنے پائے۔اللہ بڑی شان کا مالک ہے یادرکھنا! اس کے یہاں کسی کی نہیں چلتی، سب دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ عرض میں یہ کررہا تھا میرے دوستو عزیزو بزرگو!