خطبات دعوت ۔ مجموعہ بیانات ۔ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب |
|
بنائے ، اصل تو یہ سیکھنا ہے۔ تو میں نے عرض کیا تھا ان ابراہیم کان امۃ قانتا للّٰہ لم یک من المشرکین، شاکرالانعمہ،کہ ابراہیم کیسے تھے۔ قانتاللّٰہ، فرمانبردار، اللہ کی اطاعت کرنے والے، اللہ کی حمد و ثنا کرنے والے۔ شاکر الانعمہ اللہ کے انعامات کی شکر گزاری کرنے والے … اے اللہ ہم کون تھے، میں تھا میری بیوی تھی میرا بچہ تھا ہم تو وہاں تھے تو ہی تو لایا ہمیں یہاں، تو نے ہی تو اپنا گھر ہم سے بنوایا، تو نے ہی اپنے گھر کے لئے ہمیں استعمال کیا تو نے ہی خلت کا جوڑا پہنایا، اور تو نے ہی دعا کا انعام دیا اور کہا مانگو کیا مانگتے ہو، اور ہم نے جو مانگا تو تو نے ہی محمد دئے۔ اور ترے کس کس انعام کا شکر ادا کریں۔ میرے دوستو! ہم تم کیا تھے، کہاں تھے،یہ جتنا جو کچھ ہو رہا ہے یہ اللہ کے انعامات ہیں اور اللہ کی سنت مستمر ہ یہ ہے کہ جب اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی شکر گذاری ہوتی ہے تو اللہ نعمتوں کے دہانے کھول دیتے ہیں، جب اللہ کی نعمتوں کی ناقدری ہوتی ہے۔ اللہ نعمتوں کو چھین لیتے ہیں۔مسئلہ صرف چلہ چار ماہ کا نہیں ہے بلکہ بڑی ذمہ داری نبھانے کا ہے : شاکرالانعمہ… اللہ کے انعامات پر شکر گذاری کرنے والے… اس شکر گذاری پر اللہ نے کیا انعام دیا… اجتبہ وھداۃ الی صراط مستقیم۔ کہ اللہ نے ابراہیم کو چھانٹ لیا اور بالکل سیدھا راستہ دکھا دیا کہ جب آدمی اللہ کے دین کا کام اللہ کے وعدوں پر یقین کرتا ہوا اللہ کی وعیدوں سے ڈرتا ہوا… اس لئے کہ مسئلہ صرف اتنا نہیں ہے کہ چلہ دے دیاتو اسلام کا حق ادا کردیا، جس طرح میں نے بیچ میں کہا تھا نا کہ بیوی بچوں کی یہ ذمہ داری… کھانے کی… کپڑے کی… دوا کی… راشن کی ایسے ہی ان کو دین سکھانے کی…ایسے ہی یاد رکھنا! ہر ہر امتی کی … جہاں کہیں ہو… ہر ہر امتی کی ذمہ داری ہے اپنے