خطبات دعوت ۔ مجموعہ بیانات ۔ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب |
|
آگئی تھی، اس وقت میں ناشتہ دان سے مچھلی زندہ ہو کر اچھل کر سمندر میں چلی گئی تھی، اور اللہ کی شان! وَمَا اَنْسَانِیْہٗ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْکُرَہٗ اور شیطان نے مجھے بھلا دیا کہ وہ آپ سے کہدوں اسی وقت حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا بھلے آدمی! یہ کیا غضب کیا، وہی تو ہماری منزل تھی۔ ذَلِکَ مَاکُنَّا نَبْغِی ارے وہی تو ہماری منزل تھی، عَلٰی آثارِ ھِمَا، وہیں سے الٹے پیر واپس لوٹے، اب سن لو آخری بات دھیان سے۔ یوں لکھا ہے علماء کرام نے کہ حضرت موسیٰ مصر سے پیدل چلے، یہاں تک آئے اتنے لمبے سفر میں یہ نہیں کہا کہ ہم تھک گئے …… جہاں چٹان کے پاس کھڑے تھے اور وہاں سے تھوڑی دور چلے اورکہنے لگے کہ تھک کر چور گئے یہ کیا بات ہوئی؟ تو لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی منزل سامنے تھی، مقصد سامنے تھا تو رفتار میں تیزی بھی تھی، طبیعت میں نشاط بھی تھا، اور کسی طرح کا کوئی تھکان نہیں تھا اس لیے کہ منزل سے قریب ہو رہے تھے ، مقصد ہاتھ لگنے والا تھا ۔ ’’فَلْمَّا جَاوَزَا‘‘ یہ ساری پریشانی یہ تھکان ، یہ بھوک یہ سب کچھ ہوا ہے مقصد سے تجاوز کر جانے کے بعد، ……ہر طرف سے امت کی زبوں حالی کا شور اس وقت جو امت کہہ رہی ہے کہ ہم گھروں میں پریشان … ہم کاروبار میں پریشان ہم منڈیوں میں پریشان … ہم کارخانوں میں پریشان ہم لڑکوں میں پریشان… ہم لڑکیوں سے پریشان