خطبات دعوت ۔ مجموعہ بیانات ۔ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب |
|
فرماتے ہیں کہ ہم نے دو دو لقمے کھائے۔ لیکن اس کی نورانیت ہمیں مہینوں تک محسوس ہوتی رہی۔ اور عبادت میں مزہ آتا رہا۔ اور ہم میں سے ہر ایک یہ کہتا تھا کہ جس آدمی کے صبح و شام کا یہ کھانا ہوگا… اس کے اندر کتنی نورانیت ہوگی۔ لیکن وہی بزرگ یوں فرماتے ہیں کہ پھر تھوڑی دیر کے بعد ایک سیٹھ کے یہاں سے حلوے کا ایک ڈبہ آیا۔ اس حلوے کے ڈبے کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ اوپر ہی سے نحوست ٹپک رہی تھی۔ اور ظلمت تھی۔ خیر بہت ہی بادلِ نخواستہ اس میں ایک لڈو اٹھا کر کھایا یوں فرماتے ہیں کہ مہینوں تک گناہ کا… بدکاری کا… زنا کاری… کا خیال آتا رہا۔حلال روزی کا کرشمہ دو بچوں کی حیرت انگیز فراست میری محترم دینی بہنو، میرے بھائیو! حلال کے اور پاکیزہ کمائی کے لقموں میں اور ناپاک و حرام کے لقموں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک اور واقعہ یاد آیا۔ ایک ماں تھیں بیوہ ان کے دوبچے تھے۔ اپنی محنت کرتی تھیں… مزدوری کرتی تھیں… بچوں کو پالتی تھیں۔ ان بچوں کو اللہ نے ماں کی برکت سے اتنی فراست دی تھی کہ اللہ اکبر! یہ بچے جب مسجد جاتے روزانہ تو لوگ جب نماز شروع کرتے، تو یہ بچے جوتوں کے پاس چلے جاتے اور جوتوں کی تقسیم کرتے کہ یہ جنتی کے، یہ دوزخی کے۔ یہ جنتی کے… یہ دوزخی کے۔ لوگوں نے جب دیکھا تو ان کو ڈانٹا پھٹکارا۔ کہا کہ یہ بھی کوئی کھیل ہے۔ کسی کو جنتی اور کسی کو دوزخی بنانا۔ جاؤ… بھاگ جاؤ۔ بھاگ گئے۔ اب لڑکے کہاں ماننے والے… دوسری نماز میں پھر آئے… جیسے ہی لوگوں نے نماز شروع کی۔ پھر پوچھا کہ بھئی کس کے ہیں یہ بچے؟ معلوم ہوا کہ فلانی بیوہ عورت کے ہیں۔ وہاں لوگ گئے اور کہا کہ بھئی اِن کو سنبھالو۔ ماں بے چاری بیوہ… پردہ نشین… کتنا سنبھال سکتی تھیں۔ پھر بچے بھاگ کر