خطبات دعوت ۔ مجموعہ بیانات ۔ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب |
طرف…نمازوں کی طرف… روزوں کی طرف… تسبیح و تلاوت کی طرف… فکر آخرت کی طرف… تو پھر ان کی گودوں میں جو بچے پرورش پاتے ہیں… اگر ماں چھاتی کا دودھ ان کو پلاتی ہے تو صرف دودھ نہیں ہوتا دودھ کے ساتھ اس ماں کی شرافت بھی اس بچے کے اندر آتی ہے۔ دودھ کے ساتھ اس ماں کی عفت و پاکدامنی بھی اس بچے کے اندر آتی ہے جیسے دودھ میں کوئی گولی گھول کر پلائی جاتی ہے بچوں کو دوا کے طورپر … اسی طرح اس ماں کی نیکی اور بدی ہوتی ہے… گویا دودھ کے ساتھ پلائی جاتی ہے۔حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کا واقعہ ماؤں کا عجیب درجہ ہے کہ مائیں سب سے پہلی درسگاہ اور سب سے پہلا مدرسہ ہیں بچوں کے لئے۔ اب تو یہ رواج نہیں رہا ورنہ مائیں اپنے بچوں کی تربیت بچپن ہی میں اس انداز سے کیا کرتی تھیں کہ صبح جیسے ہمارے بچے مدرسہ جاتے ہیں… اسکول جاتے ہیں۔ تو واپس آکر مانگتے ہیں کہ اماں مجھے چاکلیٹ دو… اماں! مجھے بسکٹ دو… اماں! مجھے پیسہ دو۔ وہ بھی آکر کے اپنی والدہ سے کوئی فرمائش کرتے تو ان کی والدہ یوں کہتی تھیں کہ بیٹے دینے والی ذات تو اللہ کی ہے۔ اور کوئی نہیں دے سکتا۔ تم مجھ سے کیوں مانگتے ہو؟ اللہ سے مانگو! … تو وہ معصوم سے بچے… چھوٹے سے بچے یوں کہتے تھے کہ اماں اللہ سے کیسے مانگوں؟ … کہتیں کہ اللہ سے مانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نماز پڑھو… دعا مانگو۔ اللہ تمہیں دے گا۔ اب وہ چھوٹے سے بچے تو تھے ہی… پھر وضو کرتے… نماز پڑھتے… ہاتھ اٹھاتے کہ اللہ مجھے بسکٹ دے… اے اللہ! مجھے چاکلیٹ دے…تھوڑی دیر کے بعد ہاتھ پھیر کر آتے …اور یوں کہتے کہ اماں ابھی تک تو اللہ نے نہیں دیا۔اس کے دینے کے راستے بہت ہیں