خطبات دعوت ۔ مجموعہ بیانات ۔ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب |
|
کے اعمال اس طرح رچ بس جائے کہ آج میری تعلیم چھوٹ گئی … آج میرا گشت چھوٹ گیا… آج میرے گھر میں تعلیم نہیںہوئی… آج میرا دوسرا گشت چھوٹ گیا… میں تو یوں چاہتا ہوں واللہ اللہ کرے اللہ کرے …… بھوپال۔ دعوت اور دعوت کے اعمال… دعوت کے تقاضے… ان تقاضوں پر جان و مال کی قربیاں اس کے لئے ہر گھر ہر گھر کا ہر فرد اس طرح نمونہ بن رہا ہو کہ دنیا کی چار سمتوں سے کوئی آجائے …تو دعوت کتنی اونچی ہے دعوت زندگیوں کو کیا دیتی ہے… دعوت کے نتائج کیا بنتے ہیں دعوت کتنا اونچا اٹھاتی ہے … اس کا یہ شہر، یہ علاقہ اس کا ہر گھر… اس کا ہر فرد نمونہ بن رہا ہو۔ماں کی عجیب و غریب تربیت: اسی لئے میرے دوستو اللہ کے وعدے جتنے ہیں، اللہ کے وعدے وہ حقائق کے ساتھ ہیں صورتوں کے ساتھ اور نام و نمود کے ساتھ نہیں … اللہ اکبر… تربیت ہوئی تو کیسی حضرت ابراہیم تو اللہ کے خلیل ہیں… جس وقت جو حکم ملا فوراً کیا… لیکن گھر والوں کو کس طرح ساتھ لے کر چل رہے ہیں کہ حضرت ہاجرہ کا بھی سو فیصد یہی یقین بنا ہوا ہے کہ کامیابی اللہ کے حکموں کو پورا کرنے میں ہے… اب ابا تو رہے نہیں… ابا آج یہاں ہے تو کل وہاں ہے … ماں بیٹے ہیں… کیسی تربیت ہے کہ بچے کو باپ کی نیابت میں ماں نے یہ کلمہ اتنا سکھا یا ہے کہ باپ جب آتے ہیں تو چلے کی تشکیل نہیں ہے کہ بیٹے میں تو بہت چلے لگا چکااب کی دفعہ توچلہ لگادے، اتنی بات نہیں تھی ، سیدھی جان پر چھری چلانے کی بات کررہے ہیں۔ ابا جی جب ساری زندگی کا یہی خلاصہ ہے اور ساری محنت کا، عراق چھوڑا تو … ماںکے پاس رہے تو … زمزم نکلا تو، بیابان میں رہے تو … کھجور ختم ہوئی تو کھجور رہی تو … جب سب کا… خلاصہ یہی ہے اللہ ہی …سب کچھ کرنے …والے ہیں اس کو ماننا ہے … اس کی ماننا ہے … ہر حال میں مانناہے … اگر یہ حکم ہے تو آپ کر گذرئے … مجھ کو