خطبات دعوت ۔ مجموعہ بیانات ۔ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب |
یہ بھی کوئی بات ہے محنت ہم کریں …مزدوری ہم کریں… پسینہ ہم بہائیں… کمائیں ہم …اور کھائے کوئی؟ اس سال سے معمول بدل جائے گا کیا معمول بدلے گا…؟ اس سال کسی کے گھر کچھ نہیں بھیجنا… سارا اپنے پاس رکھنا… اور ایسا کرنا کہ گاؤں کے کسی آدمی کو پتہ نہ چلے کہ ہمارا باغ اتارا جارہا ہے… ابا کے زمانے میں ایسا ہوتا تھا … اسی لئے یاد رکھنا یاد رکھنا! اپنے بڑوں کی چال چلتے رہو… اپنے سلف صالحین کی راہ چلتے رہو…اور اسی لئے ہماری اس محنت میں ہمارے اس کام میں بھی یوں کہا کہ جو ہمارے بڑوں نے ہمیں نہج دیا ہے… جو بڑوں نے بتلایا ہے …جس طرح کام کرنے کو کہا ہے… یوں کہ اگر کام کرتے رہیں گے… جس طرح حضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ نے عمومی بات فرمادی… کہ اللہ کے لئے کرتے رہو گے… آپس کے مشورہ سے کرتے رہوگے …اور یکسو ہو کر کرتے رہوگے …تو ہر بلا ہر آفت سے تم محفوظ تمہارا کام محفوظ … خیر انہوں نے مشورہ کیا… بیچ کا جو بھائی تھا وہ تھا باپ کے ذہن کا… تو اس نے کہا کہ بھائی یہ بات اچھی نہیں ہے… دیکھو اپنے بڑوں کی بات کو نبھایا کرتے ہیں۔اعلیٰ اخلاق و کردار کا نمونہ : سیرت میں بھی یہ ملتا ہے ، وائل بن حجر حضرمی جب آئے ہیں مسجد نبوی میں… شاہزادوں کی حیثیت رکھنے والے… اور اللہ اکبر! کیسے ؟لیکن ان کا کیا اکرام ہوا کہ جب ان کے لئے قیام کی جگہ طے ہوگئی اور سواری لے جانے لگے… حضرت معاویہ کے گھر جارہے ہیں… حضرت معاویہ نے مہمان کو بٹھایا سواری پر اور خود …… اور چلتے چلتے کہا بھائی وائل مجھے بھی بٹھا دو… تو مہمان ناراض ہوگئے میزبان پر… کہ تم عرب کے بدو اور شہزادوں کے ساتھ! اچھا تو پھر ایسا کرو ریت بہت گرم ہے پیروں میں میرے آبلے پڑگئے، ہیں،کم سے کم اتنا کرلو اپنے جوتے مجھے دے دو تمہیں تو جوتوں کی ضرورت نہیں تم تو سواری پر