خطبات دعوت ۔ مجموعہ بیانات ۔ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب |
|
امت کا ہر طبقہ دین کا داعی تھا امت پوری کی پوری دعوت کی محنت پر جمع تھی۔ باغ میں پودا لگانے والا ایمان کا داعی تھا… مدینہ کی مارکیٹ کا تن تنہا مالک عبدالرحمن بن عوف ایمان کا داعی تھا… اس مدینہ کے گھر کی پردہ نشین خاتون ایمان کی داعیہ تھی… مزدوری کرنے والا خباب اور لوہے کا کام کرنے والا خبیب ایمان کا داعی تھا۔ امت جب مکمل طور پر داعی تھی تو کہیں کی مدعو نہیں تھی، …… اس بات کو سمجھو، اس لئے کہ اسے سمجھایا گیا تھا کہ ایمان کا نفع کیاہے؟ اور بغیر ایمان کے نقصان کیا ہے؟ نماز کا نفع سمجھایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نماز چھوڑنے کا نقصان سمجھایا، علم نبوت کا نفع سمجھایا۔۔۔۔۔ ۔جہالت کا نقصان سمجھایا، اللہ کی یاد کا نفع سمجھایا۔۔۔۔۔۔۔ اللہ سے غفلت کا نقصان سمجھایا تمہاری اخلاقی بلندی، تمہارے معاشرے کی پاکی، تمہاری شرم و حیاء اس کا نفع، اور تمہارے معاشرے کی گندگی اور تمہاری اخلاقی گراوٹ اس کا نقصان کیا ہے؟ تم میں اگر اپنے نبی والی چال کی، نبی والی زندگی کی دعوت ہے تو اس دعوت کا نفع؟ اور اگر تم نے اپنے نبی والی دعوت چھوڑ دی تو اس کا نقصان؟ یہ ایسا سمجھایا تھا … ایسا سمجھایا تھا کہ اللہ اکبر…بچے بچے کے رگ و ریشہ میں بات اتر چکی تھی۔ اس دعوت کا نفع اتنا سمجھ میں آیا تھاکہ حضورؐ جب دعوت کی بنیاد پر جماعت بنا رہے ہیں تو چھوٹے چھوٹے بچے اپنے پیروں کی انگلیوں پر اپنے پنجوں پر کھڑے ہو رہے ہیں … کہ حضورؐ میں بھی تو اتنا لمبا ہوں، بڑا ہوں، میں بھی تو جاسکوں راہ خدا میں۔ اس کو یہ حرص کیوں ہے؟ اس کو یہ لالچ کیوں ہے، اس میں یہ شوق وجذبہ کیوں