تذکیرات جمعہ |
|
آپنے فرمایا میں اللہ کا بندہ ہوں اور اللہ کا رسول ہوں ،اور اللہ کانمائندہ ہوں، انہوں نے پوچھا کہ اللہ کی نمائندگی میں آپ کیا کہتے ہیں ؟ تو آپنے ان کے سامنے یہ آیت پڑھی: ’’إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاءِ ذِي الْقُرْبٰی وَيَنْهیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ‘‘(النحل:۹۰) وہ لوگ یہ سن کرواپس چلے گئے اور انہوں نے جاکر کہا کہ جب ہم نے ’’مَنْ اَنْتَ‘‘کہا توانہوں نے صرف اپنا نام بتایا،دراصل عربوں میں یہ عادت تھی کہ اپنے تعارف میں اپنا اور اپنے باپ دادا اور سارے خاندان کاتعارف کرواتے اور ان کے کارنامے سناتے، تاکہ اپنی امیج(Image) بنے،اور اپنی عزت ہو، اور سننے والا یہ سمجھے کہ میں کوئی چھوٹا موٹا آدمی نہیں ہوں، حضور ظاہر بات ہے کہ ہر اعتبار سے بڑے ہیں، لیکن آپ نے اس کو چھیڑا ہی نہیں، صرف کہا کہ محمدا بن عبداللہ ہوں، انہوں نے کہا کہ یہ بات ہمارے لئےبہت ہی سر پرائز(Surprise) کرنے والی تھی کہ ایک آدمی سے ہم پوچھ رہے ہیں: ’’مَنْ اَنْتَ‘‘؟اور وہ صرف اپنا اور اپنے والد کا نام کہہ رہا ہے، پھر ہم نے تحقیق کی تو پتہ چلاکہ یہ قوم کے اعتبار سے،نسب کے اعتبار سے اور شرافت و بلندی کے اعتبار سے سب سے بڑے خاندان کے آدمی ہیں، دوسری بات جب ہم نے ان سے پوچھی:’’مَا اَنْتَ‘‘تو انہوں نے دو باتیں کہیں:ایک یہ کہ میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں اور دوسری یہ آیت پڑھ کرسنائی۔ اس میں بھی ایک قصہ یہ ہواکہ جب حضور پاکنے یہ آیت سنائی تو انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو اپنی قوم میں نقل کرنے والے ہیں، اس لئے ہمیں بار بار سنادیجئے تاکہ ذہن نشین ہوجائے، توحضور نےان کے سامنے یہ آیت اتنی مرتبہ دھرائی کہ ان کو یاد ہوگئی،انہوں نے جاکر اپنے سردار کویہ آیت سنادی، جب حضرت اکثم نے یہ سنا تو کہا کہ وہ تو مکارم اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں ، اور بری چیزوں سے روکتے ہیں۔