مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
خلیل احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھائی! مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا تقویٰ بڑھا ہوا ہے۔ اب شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا جواب سُنیے ،فرمایا کہ ہم اور وہ ایک ہیں، البتہ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو عوام کے حالات کی زیادہ خبر ہے۔ اب مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا جواب سُنیے،فرمایا: بھائی! میری مثال ہدہدِ سلیمانی کی سی ہے۔ اس کو ایسی خبر لگ گئی تھی غائب ہونے سے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو نہ تھی۔اللہ اکبر! کیا ایک دوسرے کا ادب تھا اورا پنے کو کس طرح مٹایا تھا۔ یہ تو ان اکابر کا معمول سُنا، اور آج بہت سے ان اکابر کا نام لینے والے رات دن ایک دوسرے کی غیبت، تبصرہ اور تنقید کو مشغلہ بناکر اپنے اعمال نامے کو سیاہ کررہے ہیں۔ علامہ عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ میرے اُوپر جو انعاماتِ الٰہیہ ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مجھ پر ایک دشمن مسلّط ہے جو مجھے بہتان اور غیبت سے اذیت پہنچایا کرتا ہے اور مجھے اضطراری طور پر یہ سنتِ انبیاء علیہم السلام حاصل ہوگئی۔ ۱۲۱)ارشاد فرمایا کہ جائز عمل اگر سبب گناہ کا ہوجائے تو وہ جائز بھی ناجائز ہوجاتا ہے، جس طرح قیمتی کپڑا مثلاً دو سو روپیہ گز کا پہننا جائز ہے مگر اس کے پہننے سے اگر بڑائی دل میں آجائے تو ناجائز اور حرام ہوگا۔ کیوں کہ یہ کپڑا عُجب اور کبر کا سبب ہوا۔ ۱۲۲) ارشاد فرمایا کہ کیوں صاحب! اگر امام صاحب نماز کے وقت اپنے حجرے سے محرابِ مسجد کی طرف اپنے کپڑے اُتارے ہوئے آویں تو آپ آنے دیں گے؟ یا سمجھیں گے کہ عقل میں فتور آگیا۔ حالاں کہ امام صاحب کہہ رہے ہیں بھائی! ہم کو نماز پڑھانے دو۔ مجھے نماز کے مسائل اور سورتیں یاد ہیں، میرا باطن بالکل ٹھیک ہے۔ صرف ظاہر کی خرابی سے آپ لوگ کیوں گھبراگئے؟ آپ ان کی ایک بات نہ سُنیں گے اور سیدھے مسجد سے نکال کر دماغ کے ڈاکٹر یا پاگل خانے لے جائیں گے۔ کیوں بھائی! ظاہر کی خرابی سے آپ کو باطن کی خرابی پر یقین آگیا اور دین کے معاملے میں ہماری ظاہری وضع قطع، ظاہری صورت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے خلاف ہو تو یہاں ہماری باطنی خرابی اور ایمان کی خرابی پر یقین کیوں نہیں