مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
موافق ہوتا ہے۔اور ان کی مسامحت و نرمی اور سختی و گرفت سب برمحل ہوتی ہے ۔ چناں چہ اس قسم کے معاملات کے متعلق مناسب معلوم ہوا کہ چند حدیثیں’’التکشف ‘‘ سے بعینہٖ نقل کردی جاویں۔ ان کے مضامین سے ان شاء اللہ تعالیٰ حدود کا علم ہوگا۔ جس کی وجہ سے علمائے باعمل اور مشایخِ کاملین کے طریقِ عمل کی قدر و منزلت دل میں پیدا ہوگی۔ نیز جو لوگ حدود سے بلاواقف ہوئے تبلیغ کرنے لگتے ہیں موقع و محل کو نہیں دیکھتے ان کی غلطی و کوتاہی بھی ظاہر ہوجاوے گی۔اوّلاً ’’التکشف ‘‘سے چند حدیثیں نقل کی جاویں گی جن کا تعلق امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے ہے پھر اور حدیثیں نقل ہوں گی جو بہت سی اغلاط کی رافع ہیں جن میں لوگ بکثرت مبتلا ہیں۔ پھر اس کے بعد کچھ اکابر کے ارشادات متعلق تبلیغ مزید معلومات و بصیرت کے لیے نقل کیے جاویں گے۔ نیز ان میں تنبیہ بھی ہے مختلف اغلاط وکو تاہیوں پر۔پہلی حدیث عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نِعْمَ الرَّجُلُ الْفَقِیْہُ فِی الدِّیْنِ اِنِ احْتِیْجَ اِلَیْہِ نَفَعَ وَاِنِ اسْتُغْنِیَ عَنْہُ اَغْنٰی نَفْسَہٗ اَخْرَجَہٗ رَزِینْ؎ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دین کا عالم بھی خوب ہوتا ہے اگر کوئی اس کے پاس (دینی) احتیاج پیش کرے تو نفع پہنچادے (یعنی دین کی تعلیم کرے) اور اگر کوئی اس کے پاس احتیاج نہ پیش کرے تو بھی وہ اپنے آپ کو بے پروا کرکے رکھے ۔روایت کیا اس کو رزین نے۔ فائدہ:عادت عدمِ تصدّی یعنی ’’درپے کسے نہ شدن ‘‘جماعتِ صوفیا کے اکثر کا مسلک نصیحت کے باب میں یہ ہے کہ زیادہ کسی کے پیچھے نہیں پڑتے۔ ایک دو بار کہہ کر اپنا حق ادا کردیا،اگر مان لیا بہتر ورنہ اپنے شغل میں لگتے ہیں۔ اغنی نفسہ اپنی عموم سے ------------------------------