مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
مضمونِ تعزیت از حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم دافع الغم ۱۔ اس حادثۂ فاجعہ سے جس قدر بھی حزن و غم ہو وہ کم ہے۔ اور یہ طبعی بات ہے۔ اس لیے شریعت نے حزن و غم کو ناپسندیدہ نہیں بتلایا بلکہ ایسے وقت خاص خاص تعلیمات دی ہیں کہ اس حزن و غم میں تدریجاً کمی ہو ورنہ اعمالِ دینیہ و دنیویہ میں شدت ِغم اور از دیادِ حزن سے خلل رونما ہوگا جو مقصدِ زندگی کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رونے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ رونا آنے پر جی بھر کے رونے کی اجازت ہے، البتہ آواز سے رونا چوں کہ اختیاری ہے اس لیے اس کو روکا گیا ہے، نیز اس سے دوسروں پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ اگر آواز بھی بے اختیار نکلے توا س کی بھی ممانعت نہیں ہے بلکہ جی بھر کے رونے کو دخل ہے غم کی تخفیف میں لہٰذا آنسو بہانے اور رونے کو روکنا مناسب بھی نہیں ہے ورنہ بہ تکلُّف ضبط کرنے سے دوسرے قسم کے ضرر لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔ ۲۔ یہ بات بھی یقینی ہے کہ جو دنیا میں ا ٓیا ہے اس کو جانا ہے اور اس کا ایک وقت مقرر ہے جو بھیجنے والے نے مقرر کیا ہے، اور اس کا صحیح علم کسی کو نہیں ،یہی وجہ ہے کہ جن کو بظاہر کوئی بیماری نہیں ہوتی وہ بھی وقتِ مقرر پر ایک دم روانہ ہوجاتے ہیں جس کو آج کل حرکتِ قلب بند ہونے سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کو خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذو ب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے ؎ ہو رہی ہے عمر مثلِ برف کم چپکے چپکے رفتہ رفتہ دم بہ دم