مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
اَحَدُھُمَایَحْتَرِفُ وَ الْاٰخَرُ یَلْزَمُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَتَعَلَّمُ مِنْہُ، فَشَکَی الْمُحْتَرِفُ اَخَاہُ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَعَلَّکَ بِہٖ تُرْزَقُ؎ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو بھائی تھے، ایک تو کوئی پیشہ کرتا تھا اور دوسرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہتا اور دین سیکھتا تھا، پیشہ والے نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :شاید تم بھی اسی کی وجہ سے رزق دیے جاتے ہو۔ فائدہ:اس کی توضیح ایک مثال سے عرض کرتا ہوں: ایک فوجی سپاہی جس کے بھائی کو اس کے طفیل میں ٹھیکہ مل گیا، فوجی حلقے کے کام کا جس سے ہزار روپیہ کی آمدنی ہونے لگی۔یہ فوجی سپاہی کا بھائی فوجی سپاہی کے اہل و عیال کی دیکھ بھال بھی کرتا رہتا تھا۔ اس کے بھائی نے فوجی افسر سے شکایت کی کہ یہ میرا بھائی گھر کی دیکھ بھال نہیں کرتا ہے متفرق بوجھ اٹھانے پڑتے ہیں تو اس کا افسر بھی کہے گا کہ میاں! تم کو جو کچھ مل رہا ہے یہ سب اس سپاہی کے طفیل میں ہے،اس لیے کہ تم اس کے عزیزوں میں سے ہو لہٰذا تم اس کے رہینِ منّت ہو۔اسی طرح جن لوگوں کے اعزہ دین میں مشغول ہوں اور ان کو وسعتِ مالی ہو تو اپنے اعزہ کی خدمت اور ان کے اہل و عیال کے ضروریات کا انتظام کرنا چاہیے کہ اس نعمت کا شکر یہی ہے،اور اس کو دینی عزیز کا طفیل سمجھیں۔ آج کل ہم لوگ اس راز سے ناواقفیت کی وجہ سے ایسے لوگوں پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہ ہماری غلطی ہے۔تیسری حدیث جو شخص دین بتانے یا پوچھنے کے لیے جاتا ہے اس کو پورے حج کا ثواب ملتا ہے: عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ رَفَعَہٗ قَالَ :مَنْ غَدَا اِلَی الْمَسْجِدِ لَایُرِیْدُ اِلَّا اَنْ یَّتَعَلَّمَ خَیْرًا اَوْ یُعَلِّمَہٗ کَانَ لَہٗ اَجْرُ حَاجٍّ تَامًّا حَجُّہٗ ؎ ------------------------------