مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
طرح دینی اعمال میں بھی بعضے اعمال بہت سہل بہت مختصر مگر ان کی منفعت مضرت بہت زیادہ ہوتی ہے۔دیکھیے ترکِ تبلیغ واجب کے چھوڑنے سے (جو بہت سہل کام ہے) قبولیتِ دعا سے محرومی ہوجاتی ہے (جو ہر قسم کی خیر و بھلائی کا باعث ہے) اور طرح طرح کے عذاب و مصائب میں گرفتار ہوتی ہے۔اور سنیے ایک ایٹم بم کتنی مضرّات کا باعث ہے،اور ایک دفعہ کا کلمۂ طیبہ پڑھنا کفر جیسی مہلک مضر شیٔ کے مضرات سے بچادیتا ہے خواہ ہزارہا سال کا کفر ہو۔ اسی طرح ارتداد سے (دینِ اسلام سے پھر جانا) خواہ حضور کے خاتم النبیین ہونے کا انکار ہو خواہ ملائکہ کا، خواہ جنت کا انکار ہو خواہ جہنم کا،غرض کہ کسی ضروری قطعی عقیدےکے انکار سے سارے اعمالِ صالحہ حبط و ضایع ہوجاتے ہیں۔اس بات کو خوب ذہن نشین کرلیجیے۔ جب یہ ظاہر ہوگیا کہ اعمالِ دنیویہ ہوں یا دینیہ ان کے خواص بڑی منفعت یا مضرت کا باعث ہوتے ہیں تو اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اعمال کے متعلق زجر و اجر، سزا و عطا، ثواب و عذاب ان ہی اعمال کا درجہ ظاہر کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔کسی امر پر سزا کی وعید ہے تو اس سزا سے اس عمل کی قباحت و خرابی کے درجے کا ظہور ہوتا ہے۔اسی طرح اس پر کسی انعام و عطا کے وعدے سے اس کی خوبی و عمدگی کا پتا چلتا ہے۔ یہیں سے اس بات کی (جو بہت سے ناواقف حضرات کہہ دیا کرتے ہیں کہ فلاں عمل پر اتنی بڑی سزا یا فلاں کام پر اتنا بڑا اجر ہماری سمجھ میں نہیں آتا) کچھ غلطی ظاہر ہوگئی کہ وہ اعمال کے اثرات و خاصیات سے واقف نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ قیاس کرتے ہیں دنیوی جزا و سزا کواخروی جزا و سزا پر جو قیاس صحیح نہیں کہ یہاں کے حکّام و منعم کے جملہ اشیاء محدود اور دوسرے کی عطا ہیں بخلاف اخروی نعم کے، کہ وہ غیر محدود اور مشیتِ الٰہی پر موقوف ہیں اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، کوئی روکنے والا نہیں۔امرِ دوم ہر چیز کے اثرات و خواص ظاہر ہونے کے لیے کسی مانع کا نہ ہونا بھی شرط ہے۔مثلاً: دیا سلائی کی خاصیت جلانا و روشنی کرنا ہے،یہ خاصیت اس شرط پر ظاہر ہوگی کہ بھیگی ہوئی نہ ہو ورنہ یہ اثر ظاہر نہ ہوگا۔اسی طرح اعمالِ دینیہ کے خواص و تاثیرات کا