مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
حرکات پر تشدد نہیں کرتے بلکہ نرمی اور تحمل سے پیش آتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات کم فہموں کو مُداہنت کا شبہ ہوجاتا ہے۔سو اس حدیث سے ایسے اُمور میں غایتِ نرمی اور ضبط کا اثبات ہوتا ہے اور مداہنت وہ ہے جس میں اپنی کوئی دنیوی غرض ہو۔ اور جہاں مصلحتِ دینیہ ہو وہ محمود ہے۔تیسری حدیث عَنْ وَھْبٍ قَالَ: سَاَلْتُ جَابِرً اعَنْ شَاْنِ ثَقِیْفٍ اِذَا بَایَعَتْ، قَالَ اِشْتَرَطَتْ اَنْ لَّاصَدَقَۃَ عَلَیْہَا وَلَاجِھَادًا، وَاَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: سَیُصَدِّ قُوْنَ وَیُجَاھِدُوْنَ اِذَا اَسْلَمُوْا۔۔۔اخرجہ ابوداؤد ؎ وہب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قبیلۂ بنی ثقیف کا قصہ ان کی بیعت کے وقت کا دریافت کیا،اُنہوں نے فرمایا کہ ان لوگوں نے یہ شرط لگائی تھی کہ ان کے ذمہ یعنی ہمارے ذمہ زکوٰۃ اور جہاد نہ ہوگا۔اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سُنا کہ یہ لوگ زکوٰۃ بھی دیا کریں گے اور جہاد بھی کیا کریں گے جب اسلام لے آویں گے (یعنی اس وقت ان سے قیل وقال جواب و سوال کی ضرورت نہیں ،جس طرح یہ کہیں اسی طرح ان کی بیعت قبول کرلی جاوے پھر آپ ہی اسلام اور علم اور صحبت کی برکت سے درست ہوجاویں گے)۔ روایت کیا اس کو ابوداؤد نے تیسیر ص۲۴۲۔فائدہ:عادتِ تسامح فی الضروریات احیاناً بعض دفعہ بزرگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ اپنے پاس آنے جانے والوں کے ساتھ اور بالخصوص جن سے زیادہ تعلق نہیں ہے اور کبھی اپنے متعلقین کے ساتھ بھی بعض قبائح پر چشم پوشی و خاموشی کرجاتے ہیں ،اور اسی حالت میں ان کو اورادواذکار کی تلقین بھی کردیتے ہیں، ترکِ قبائح کا انتظار نہیں کرتے۔اس سے عوام کو شبہ مداہنت کا ------------------------------