مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
ہیں۔ بعض دینی کتب پر قلم، چشمہ اور ٹوپی رکھ دیتے ہیں ان باتوں سے بچناچاہیے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل بے ادب کو نہیں ملتا۔حضرت عارف رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ اے خدا جوئیم توفیقِ ادب بے ادب محروم ماند از فضلِ رب اے خدا! ہم آپ سے ادب کی توفیق مانگتے ہیں، کیوں کہ بے ادب آپ کے فضل سے محروم ہوجاتا ہے۔ حضرت حکیم الاُمت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے طلبائے کرام و علمائے کرام سے ایک مرتبہ خطاب فرمایا کہ صاحبو! جتنا آپ نے پڑھا ہے اتنا ہی درسِ نظامیہ ہم نے بھی پڑھا ہے مگر آج علم کی جو برکتیں آپ محسوس کررہے ہیں یہ سب اساتذۂ کرام کا ادب و اکرام کا ثمرہ ہے اور حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دعائیں ہیں۔جس نے کسی کو ایک آیت بھی کلام اللہ کی سکھادی تو وہ سکھانے والا طالبِ علم کا آقا بن گیا۔ یعنی طالبِ علم غلام اور اُستاد آقا ہوگیا۔غرض یہ ہے کہ اُستاد کا بہت ادب کرنا چاہیے۔چند آداب اشرف التفہیم لتکمیل التعلیم ان ہدایات مندرجہ ذیل کو حضرت حکیم الاُمت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت پسند فرمایا تھا: ۱) طلبائے کرام کو چاہیے کہ اساتذہ کے ساتھ حُسنِ ظن رکھیں۔ اگر کسی طالبِ علم کے ساتھ خاص برتاؤ کیا کرے تو یہ سمجھ لے کہ وہ صاحب اسی لائق ہیں اور میں اسی لائق ہوں،یا میرے ساتھ یہی برتاؤ مصلحت ہے اور ان کے ساتھ وہی برتاؤ مصلحت ہے۔ یا یوں سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ پر اُن کا حساب ہے مجھے بدگمانی سے کیا نفع ہوگا۔ میں ان کے فیوض و برکات سے محروم رہوں گا اور آخرت میں بدگمانی کے وبال میں گرفتار رہوں گا۔ اور مصلحت میں زیادہ غور و خوض نہ کرے۔ بس اپنے دل میں یہ سمجھ لے کہ ہوگی کوئی مصلحت ۔یہ طریقہ سرمایۂ راحتِ دارین ہے۔