مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
فائدہ: عادتِ غضب پر بعض مباحاتِ خلافِ وضع یہ نکاح مباح اور حلال تھا۔چناں چہ قواعدِ شرعیہ سے بھی ظاہر ہے اور خود بعض روایات میں آپ کا صریحی ارشاد بھی اس کے متعلق آیا ہے، مگر باوجود اس کے بمصالحِ مذکورہ حدیث آپ کو یہ نکاح ناگوار ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر خصوصیت کی جگہ اسی قسم کے مصالح سے کسی امرِ مباح سے اظہارِ ناخوشی کے ساتھ اپنے مخصوصین کو روکا جائے تو یہ تحریمِ حلال نہیں۔ بزرگوں سے بھی ایسےواقعات کا مشاہدہ ہوا ہے۔پانچویں حدیث عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یُوْشَکُ اَنْ یَّکُوْنَ خَیْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَتْبَعُھَا بِھَا شَعْفَ الْجِبَالِ وَ مَوَاقِعَ الْقَطْرِ، یَفِرُّ بِدِیْنِہٖ مِنَ الْفِتَنِ اخرجہ البخاری ومالک وابوداؤدوالنسائی ؎ حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایسا وقت نزدیک آنے والا ہے کہ مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لیے لیے پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے جمع ہونے کی جگہوں یعنی نالوں میں (جب کہ وہ خشک ہوجاویں) پھرے گا۔اپنے دین کو لیے ہوئے فتنوں سے بھاگا بھاگا پھرے گا۔ روایت کیا اس کو بخاری و مالک و ابوداؤد و نسائی نے۔ (تیسیر ،ص: ۳۸۳)فائدہ: عادتِ عزلت بمصلحت بعض بزرگوں نے اپنی خاص حالت کے اقتضاسے گوشہ اختیار کیا ہے، اس حدیث سے اس کا اذن بلکہ استحباب معلوم ہوتا ہے جب کہ اختلاط میں ضررِ دین کا اندیشہ ہو۔ ------------------------------