مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
لباس، وضع و دیگر مُعاشرت کے متعلق بھائی صاحب! ایک خاص بات کی طرف آپ کو توجہ دلاناچاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے کااقرار کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس سے بڑا کوئی نہیں۔وہ ہمارا آقا ہے، حاکم ہے اور تمام حاکموں کا حاکم ہے بلکہ تمام بادشاہوں کا بادشاہ اور مالک ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہمارے آقا، حاکم و مالک ہیں تو ہم ان کےغلام و محکوم و مملوک ہیں۔ سو جس طرح ہر محکمے میں ایک وضع و لباس مقرر ہوتا ہے جس سے دوسروں سے نمایاں فرق ہوجاتاہے،دیکھیے سپاہی اور ڈاک خانے کے ملازم کو ہر شخص دور سے دیکھ کر پہچان لیتا ہے۔ ڈاکیہ کو آتے دیکھ کر ہر شخص اس کی طرف جلد متوجہ ہوتا ہے،یہ سمجھتے ہوئے کہ اگر روپیہ نہیں دے گا تو خط کے ملنے کی تو اُمید ہے،اور سپاہی کو دیکھ کر ہر شخص خائف ہوتا ہے کہ خدا خیر کرے،اور یہ چاہتا ہے کہ میری طرف متوجہ نہ ہو۔یہ سب لباس وضع کا اثر ہے۔ اگر کوئی ملازم اپنے عملے کا لباس نہ اختیار کرے اور کام انجام دے تو مجرم قرار پاکر معطل کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے مطیع و فرماں بردار بندوں یعنی مسلمانوں کے لیے ایک وضع و لباس مقرر کیا ہے،اس کے اختیار کرنے سے دوسروں پر رُعب و ہیبت بیٹھتی ہے، اس وضع و لباس کے خلاف کرنے سے مسلمان اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض و ناپسندیدہ ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے گر جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا رعب و داب ختم ہوجاتا ہے اور دوسرے اس کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگتے ہیں جیسا کہ آج کل ہورہا ہے۔ لہٰذا شرعی وضع و لباس کی پابندی نہ صرف ہمارے ذ مہ ہی ضروری نہیں بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی اس کا پابند کرنا ضروری ہے۔ شرعی وضع و لباس کے متعلق چند ضروری باتیں اپنے گھر والوں کو بتلادیں تاکہ بچوں کو شروع ہی سے اسلامی وضع و لباس کا پابند بنادیں:(۱)ٹخنہ ڈھانکنا مردوں کے لیے حرام ہے۔ لہٰذا پائجامہ و لُنگی میں اس کا خیال رکھیں۔(۲)گھٹنے کھولنا بھی حرام ہے۔ لہٰذا اس سے اونچا کپڑا نہ استعمال کریں۔ (۳)کوئی ایسا لباس ووضع نہ ہو جو کفار و فساق کے ساتھ خاص ہو یعنی اس کے استعمال کرنے سے لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ