مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
وَسَلَّمَ مَاحَدُّ الْعِلْمِ الَّذِیْ اِذَا بَلَغَہُ الرَّجُلُ کَانَ فَقِیْھًا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :مَنْ حَفِظَ عَلٰی اُمَّتِیْ اَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا فِیْ اَمْرِ دِیْنِہَا بَعَثَہُ اللہُ فَقِیْہًا وَکُنْتُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَافِعًا وَّشَہِیْدًا؎ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اس علم کی کیا حد ہے جس سے اس کو درجۂ علماء مل جاوے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص میری امت کے لیے ان کے دینی اُمور میں چالیس حدیثیں محفوظ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت میں عالم (بناکر) اٹھائے گا اور (مزید یہ کہ) میں اس کے لیے سفارش کرنے والا اور گواہ بنو ں گا۔ فائدہ: حفاظت کرنے میں خود یاد کرنا، ان کی اشاعت کرنا، دوسروں کو سنانا سب آگیا ہے۔ اسی حدیث کی بناءپر علمائے کرام نے چہل حدیثیں مرتب کی ہیں۔ اس ناکارہ نے بھی اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے’’اشرف الکلام‘‘ کے نام سے حال میں ایک چہل حدیث مرتب کی ہے جس کا ذکر بابِ چہارم میں ملے گا ان شاء اللہ تعالیٰ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طباعت کا انتظام فرمادیں۔ بہت اہم اور ضروری مضامین اس میں جمع کیے گئے ہیں۔تیسری فصل:محققین علماء و مشایخ کے ارشادات میں چوں کہ اس وقت اختصار مطلوب ہے صرف بتلانے کے لیے کہ محققین علماء و مشایخ کو اس کا کتنا اہتمام رہا ہے اس لیے صرف دو ارشادات پر اکتفا کی جاتی ہے: ایک ارشاد حضرت شیخ احمد سرہندی مجدّدِ الف ثانی نوراللہ مرقدہ ٗ کا ہے،اور دوسرا حکیم الامت مجدّدِ ملّت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی نوراللہ مرقدہٗ کا وَکَفٰی بِھِمَا قُدْوَۃًپہلا ارشاد حضرت مجّددِ الف ثانی کا ترویجِ علمِ دین کےسلسلے میں ایک کوڑی خرچ کرنے کا اجر لاکھوں روپیہ خرچ ------------------------------