مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
باہم ملالو یوں کھلا ہوا لے کر مسجد میں نہ جاؤ تاکہ مسجد میں کچھ ناپاکی نہ گر پڑے، تو دوسرا شخص اس کی بات ضرور مان لیتا اور کہتا کہ جزاک اللہ خیرا۔اور یقیناً وہ اپنے جوتے باہم ملالیتا۔‘‘ شیخ محی الدین ابنِ عربی رحمۃاللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ نصیحت کرنے کی شرط یہ ہے کہ نصیحت ؎ سے پہلے ایسی تمہید اٹھائی جائے جس سے دوسرا شخص خود بخود اُس کام کے چھوڑنے یا کرنے پر آمادہ ہوجائے جس کے لیے تم نصیحت کرنا چاہتے ہو۔ اور یاد رکھو بسا اوقات ایسا شخص جو بدون سیاست و تدبیر کے نصیحت کرتا ہے نصیحت کے بعد اپنے فعل پر نادم ہونا پڑتا ہے اور جب دوسرا شخص جسے نصیحت کی تھی اس کو ایذادیتا ہے اس وقت یوں کہتا ہے کہ میں ہی ظالم اور قصور وار تھا کہ میں نے اس کو نصیحت کی۔ اب یہ شخص نصیحت کو جو شرعاً واجب ہے، ظلم قرار دیتا ہے حالاں کہ اس کو نصیحت کی وجہ سے ایذا نہیں پہنچی بلکہ طریقِ سیاست سے ناواقف ہونے کی وجہ سے تکلیف پہنچی ہے۔خوب سمجھ لو یہ نفیس علم ہے۔چوتھا باب ان متفرق اُمور میں جن کا تعلق امربالمعروف و نہی عن المنکر سے ہے چوں کہ صحیح اور پورا علم نہ ہونے کی وجہ سے بہت غلطیاں اور غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں جیسا کہ اکثر عوام میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ جب ان کو کچھ دین کی معلومات ہوتی ہیں اور دین کے کام میں لگتے ہیں تو علماء و مشایخِ کاملین کے معمولات پر اعتراض میں سبقت کرنے لگتے ہیں،کسی پر الزام ہوتا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہیں کرتے،کسی پر یہ اعتراض ہے کہ مستحبات پر بھی گرفت ہے،کسی پر یہ طعن ہے کہ روک ٹوک نہیں کرتے،کسی پر یہ اتّہام ہے کہ اُن کے یہاں بڑی سختی ہے کہ ہر چیز پر روک ٹوک ہے غرضیکہ اسی قسم کے اعتراض کرکے اپنے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں حتیٰ کہ بعض پڑھے لکھے حضرات کو بھی علمائے باعمل پر اعتراض کرتے دیکھا ان سب کا منشا وہی حدود کی ناواقفیت جس کی وجہ صحیح اور کامل علم نہ ہونا ہے حالاں کہ ان حضرات کا عمل سنت کے ------------------------------