مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
اگر ہم سنت نہ اپنائیں گے تو کسی اور کا طریقہ اپنائیں گے۔ یا تو ہم اپنے نفس کے طریقے پر یا اپنی بیوی کے طریقے پر یا برادری کے طریقے پریا شہر کے طریقے پر یا صوبے کے طریقے پر یا ملک کے طریقے پر چلیں گے، پھر ہمارا دین یا نفسانی یا برادری والا یا صوبائی یا ملکی ہوگا، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں سے بڑھ کر کس کا طریقہ ہوگا؟اور نجات و فلاح کا وعدہ کس کے طریقے پر چلنے سے ہے؟ وصول تو مطلوب ہے مگر اُصول کے ساتھ۔ سنت کے طریقوں کے علاوہ قربِ حق کا تصور ہی جہالت ہے۔ ورنہ حاکم کے پاس تو مجرم بھی ہوتا ہے مگر بے اُصول ہونے کے سبب معتوب ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ میرے لڑکے نے داڑھی رکھی تھی پھر بھی منڈادی ہے۔ میں نے اس وجہ سے بولنا چھوڑ دیا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ ماجور ہوں گے۔اور جو حضرات ترک نہیں کرتے وہ اس مصلحت کو سامنے رکھتے ہیں کہ کہیں اور زیادہ نہ خراب ہوجاوے پس یہ لوگ بھی معذور ہیں۔جامعہ اشرفیہ لاہور ، ۲۷؍محرم الحرام ۱۳99ھ ارشاد فرمایا کہ اصلاحِ نفس اور تزکیہ نہ ہونے سے ایک فارغ التحصیل اہلِ حق ادارے سے جب بمبئی کے ایئر پورٹ پر پہنچے اور اپنے وطن جانے لگے تو داڑھی مونچھ منڈاکر پتلون کوٹ ٹائی لگاکر چلے گئے۔اہلِ صلاح کی وردی اور دین اپنے وطن لے جانے کی ہمّت نہ ہوئی۔ اس طرح بعض اہلِ حق کے ادارے سے فارغ ہیں مگر اہلِ باطل کی مساجد میں نمایندگی کررہے ہیں اور امامَت کررہے ہیں۔ اور جو خشیت اور تقویٰ کی نعمت سے آراستہ ہوئے وہ یونی ورسٹی میں بھی جاکر دیندار اور صالحین کی وضع قطع میں رہے۔ ایک رئیس تاجر جو حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں آیا جایا کرتے تھے پھر ایسی حالت ہوگئی کہ ترازو پر گھی کا کنستر رکھا اور اذان کی آواز سنی، اسی حالت میں دوکان بند کردی اور کہا: اب نماز بعد گھی تُلے گا۔ ایک عالم فارغ دس سال تک دیہات میں جمعہ پڑھتے رہے اور ہّمت ترک کی نہ ہوئی جب حضرت