مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
مسائل کا علم حاصل کرنا ضروری ہے‘‘چناں چہ حضرت مجدّدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ان حدود کو ’’اصلاحِ انقلاب‘‘،’’ آدابِ تبلیغ‘‘،’’الدعوۃ الی اللہ‘‘وغیرہ میں ذکر فرمایا ہے اور ان حدود کی رعایت کی تاکید کی ہے۔ چناں چہ آدابِ تبلیغ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ہم تو یہ جانتے ہیں کہ خدا و رسول کا یہ حکم ہے اور نصوص کے اندر امر بالمعروف کا حکم موجود ہے اور اس کے نہ کرنے پر نکیر بس اس کو کرو الخ ۔البتہ شرائط اور احکام کے ساتھ کرو، اندھا دھند مت کرو۔ فقہا نے اس کے قوانین و ضوابط مدوّن کردیے ہیں ان کو سیکھو۔ علماسے پوچھو وہ تم کو راستہ بتلائیں گےالخ‘‘۔تنبیہ یہاں تک وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق زیادہ خطابِ خاص سے ہے جس کو تبلیغ و امربا لمعروف و نہی عن المنکر کہا جاتا ہے اور ضمناً وعظ کے آداب بھی آگئے ہیں۔ بعض اُمور وہ ہیں جو واعظین کے لیے قابلِ اہتمام اور قابلِ ترک ہیں ان کو الگ بیان کیا جاتا ہے:واعظین کے لیے قابلِ اہتمام اُمور میں رسالۂ’’تفہیم المسلمین‘‘ میں حضرت مجّددِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے تفصیلی ہدایات تحریر فرمائی ہیں وہاں ملاحظہ فرمائی جاویں۔ بوجہ اندیشۂتطویل بیان نقل نہیں کیا گیا۔رسالہ’’دعوۃ الداعی‘‘رسالہ’’تعلیم المسلمین‘‘ شایع ہوچکا ہے۔ البتہ بعض وہ اُمور جو خاص طور سے قابلِ ترک ہیں وہ بھی حضرت مجدّدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے رسالہ ’’حقوق العلم‘‘سے نقل کیے جاتے ہیں: ۱) وعظ کہنے کو خلافِ شانِ علم سمجھنا یہ خطائے عظیم ہے۔ ۲) وعظ کہہ کر نذرانہ لینا یا پہلے سے ٹھہرالینا،جس کا ایک اثر یہ ہے کہ اس وعظ کا کسی پر اثر نہیں ہوتا۔دوسرا اثر یہ ہے کہ واعظ اظہارِ حق سے بخوفِ فوت و نقصانِ مال رکتا ہے ۔اور تنخواہ لے کر وعظ کہنا اس سے مستثنیٰ ہے۔اسی باب کی دوسری فصل میں اس کا کچھ مبسوط بیان ہوا ہے۔ ۳) وعظ میں غیر ضروری مضامین یا مضرِّ عوام مضامین مثل دقائقِ تصوف و مسائلِ غریبہ بیان کرنا۔