مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
فائدہ:مسئلہ عدمِ تنا فی بین الکمال و اسباب المعاش بکریوں کا اسبابِ معاش ہونا ظاہر ہے۔ پس حدیث کی دلالت مقصود پر ظاہر ہے۔ بعض عوام ان میں تنا فی سمجھتے ہیں۔چھٹی حدیث عَنِ اَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَالَ: قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :لَوْ رَاَیْتَنِی الْبَارِحَۃَ وَاَنَا اَسْتَمِعُ لِقِرَاءَتِکَ لَقَدْ اُعْطِیْتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیْرِ اٰلِ دَاؤٗدَ ۔اَخْرَجَہُ الشَّیْخَانُ وَالتَّرْمِذِیُّ وَزَادَ فِیْ رِوَایَۃِ الطَّبْرَانِیِّ عَنْ مُسْلِمٍ: لَوْ عَلِمْتُ وَاللہِ یَا رَسُوْلَ اللہِ اَنَّکَ تَسْتَمِعُ لِقِرَاءَ تِیْ لَحَبَّرْتُہٗ لَکَ تَحْبِیْرًا؎ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تم مجھ کو گزشتہ شب میں دیکھتے تو بہت خوش ہوتے،میں تمہارا قرآن پڑھنا سن رہا تھا، واقع میں تم کو داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی کا حصہ عطا ہوا ہے۔ روایت کیا اس کو بخاری و مسلم و ترمذی نے۔ اور طبرانی کی روایت میں مسلم سے اتنا اور زیادہ ہے کہ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ!واللہ! اگر مجھ کو معلوم ہوتا کہ آپ میرا قرآن سن رہے ہیں تو میں آپ کے خاطر اس کو خوب ہی بناتا اور سنوارتا۔( تیسیر ۔ص:۳۵۸)فائدہ: مسئلہریا نبودن تحسینِ عمل برائے تطییبِ قلوبِ صلحاء بزرگوں کا دل خوش کرنے کے لیے اگر کوئی طاعت یا خدمت اچھی طرح کی جاوے کہ مخلیٰ بالطبع ہوکر اس طرح نہ کرتا تو ظاہر میں اس میں شبہ ریا کا معلوم ہوتا ہے مگر چوں کہ تطییبِ قلبِ اہل اللہ بلکہ مطلق مسلم خود عبادت ہے تو اس کی حقیقت یہ ہوئی کہ ------------------------------