مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
کہ میاں! پہلے اپنی اصلاح کرو پھر دوسروں کو کہو سنو ،اور یہ کہاں درست ہے کہ خود عمل نہ کرو اور دوسروں کو نصیحت کرو۔سو اس حدیث سے معترضین کی غلطی ظاہر ہوگئی کہ ایسا نہیں ہے کہ جو عمل نہ کرے اس کو حقِّ نصیحت نہیں ہے بعض لوگ ایسے موقع پرآیتِ ذیل پڑھ دیتے ہیں:اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ ...الخ اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بے عمل کےلیے دوسرے کو نصیحت کرنا درست نہیں ہے۔ (ملاحظہ ہو تفسیر و ترجمہ آیتِ بالا)زجرِ عالم بے عمل۔کیا غضب ہے کہ کہتے ہو اور لوگوں کو نیک کاموں کو (نیک کام سے مراد ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا) اور اپنی خبر نہیں لیتے۔حالاں کہ تم تلاوت کرتے رہتے ہو کتاب کی (یعنی توریت کی اور اس میں جابجا ایسے عالم بے عمل کی توہین مذکور ہیں جو تلاوت کے وقت تمہاری نظر سے گزرتی ہیں تو پھر کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ ہم ان مذمتوں کے مصداق بنتے جاتے ہیں)۔ فائدہ:اس سے یہ نہیں نکلا کہ بے عمل کو واعظ بننا جائز نہیں بلکہ یہ نکلتا ہے کہ بے عمل بننا جائز نہیں۔ اور ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے (تفسیر بیان القرآن) البتہ بے عمل عالم وواعظ کے لیے سزائے درد ناک ہے۔ ملاحظہ ہو دوسری حدیث۔دوسری حدیث تبلیغ کرنے والوں کو خود بھی عمل کرنا چاہیے ورنہ شدید عذاب کا اندیشہ ہے: عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: یُؤْتٰی بِالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ فَتَنْدَلِقُ اَقْتَابُ بَطْنِہٖ فَیَدُوْرُبِھَا کَمَا یَدُوْرُ الْحِمَارُ بِالرُّخٰی فَیَجْتَمِعُ اِلَیْہِ اَھْلُ النَّارِ فَیَقُوْلُوْنَ یَافُلَانُ! مَالَکَ اَلَمْ تَکُنْ تَأْمُرُبِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہٰی عَنِ الْمُنْکَرِ فَیَقُوْلُ بَلٰی کُنْتُ اٰمُرُبِالْمَعْرُوْفِ وَلَااٰتِیْہِ وَاَنْہٰی عَنِ الْمُنْکَرِ وَاٰتِیْہِ؎ ------------------------------