مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
ہر دینی ادارے و انجمن کی طرف سے مبلّغین کے تقرّر کا اہتمام حضرتِ اقدس حکیم الامت مولانا تھانوی کے چند ارشادات ۱۔ ملفوظ نمبر۱۴۱: منقول الافاضات الیومیہ من الافادات القومیہ۔ مطبوعہ تھانہ بھون، صفحہ :۱۲۰،جلد: ششم۔ ’’ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ درس و تدریس متعارف مقصود کا مقدمہ ہیں اور اصل مقصود تبلیغ ہے۔ آج کل بڑی کوتاہی ہورہی ہے کہ درس و تدریس کو اصل سمجھ لیا ہے۔اور اس کوتاہی اور غلطی کی بدولت اکثر علما کو جو تبلیغ نہیں کرتے ایک بہت بڑی فضیلت سے محرومی ہوگئی ہے۔ حضرات ا نبیاء کا درس یہی تبلیغ تھا۔ ابتدا میں درس و تدریس اور بعد فراغِ علوم تحصیل اور تبلیغ دونوں کے حقوق ادا کرنا چاہئیں۔ ایک کی طرف متوجہ ہوکر دوسرے سے غفلت کرنا یہ عظیم کوتاہی ہے۔ علما کو اس کی طرف ضرور توجہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنا وقت تبلیغ میں بھی صَرف کیا کریں۔ اور اس کی ایک سہل اور بہتر صورت یہ ہے کہ مدارس کی طرف سے کچھ مُبلّغ مقرر کردیے ہیں۔ آج کل مدارس میں اس کی بڑی کمی ہے۔ پڑھنے پڑھانے میں جس قدر مشغول ہے تبلیغ کی طرف مطلق توجہ نہیں ۔جس قدر وقت اس میں صَرف کرتے ہیں تبلیغ میں اس کا نصف حصہ بھی خرچ نہیں کرتے۔‘‘ ۲۔ از تعلیم المسلمین،۱۴؍ذی الحجہ ۱۳۶۵ھ مقام تھانہ بھون۔ ’’ ہر مدرسہ اسلامیہ کم از کم ایک واعظ مقرر کرے،اور یہ سمجھے کہ ضرورتِ تعلیم کے لیے ایک مدرّس کا اضافہ کیا گیا،کیوں کہ جس طرح مدرسے کے معلّمین طلبہ کے مدرّس ہیں یہ واعظین عوام کے مدرّس ہیں۔ اسی طرح اہلِ انجمن یہ سمجھیں کہ تعلیمِ عوام کے لیے یہ ایک مکتب ہے جو شاخ ہے انجمن کی۔‘‘ ۳۔ از تفہیم المسلمین،۲۳؍ ذی الحجہ ۱۳۵۶ھ ۔تھانہ بھون۔ ’’جو علما کسی دینی خدمت میں مشغول ہیں جیسے درس و تدریس،تصنیف و تالیف وغیرہ وہ بھی اپنی نشست و برخاست میں اور اوقاتِ ملاقات میں بندگانِ خدا کو