مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
چوتھی حدیث عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکِ الْحَیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَایَقُصُّ اِلَّااَمِیْرٌ اَوْمَامُوْرٌ اَوْمُخْتَالٌ ؎ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: نہیں نصیحت کرتا ہے کوئی مگر یہ کہ حاکم ہو یا حاکم کی طرف سے مامور ہو یا بڑائی کا طالب ہو۔ فائدہ:حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف میں ممانعت ہے وعظ کی بغیر حاکم کی اجازت کے،کیوں کہ حاکم مصالحِ رعیت کو زیادہ سمجھتا ہے۔اگر وہ خود یہ کام نہ کرسکے گا تو کسی اہل کو مقرر کردے گا جس میں حسب ذیل اوصاف کی رعایت رکھے گا کہ علم، تقویٰ، دیانت و امانت، ترکِ طمع، حسنِ عقیدت سے آراستہ ہو اور جہل و فسق و خیانت و بدعت سے دور ہو۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اسی حدیث سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ اصلاحِ نفس کے لیے شیخ بننا یا وعظ کہنا بغیر اجازتِ مشایخ و کاملین کے درست نہیں ہے۔ فائدہ:حضرت مجدّدِ اعظم فرماتے ہیں: حدیثِ بالا سے محققین و محقین واعظین پر شبہ نہ کیا جائے کہ یہ نہ امیر ہیں نہ مامور من الامیر پس یہ بھی مختال ہوں گے۔ جواب یہ ہے کہ عام اہلِ ایمان کی رغبت و التجا بجائے امر من الامیر کے ہے کیوں کہ امیر کی امارت بھی اسی اتفاق پر مبنی ہے ؎پانچویں حدیث علمِ دین کو مقابلہ اور بحث و مباحثہ اور لوگوں میں بڑائی کے خیال سے حاصل کرنے کی سزا جہنم ہے۔ عَنْ کَعْبِ ابْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :مَنْ ------------------------------