مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
بادشاہوں کو معلوم ہوجاوے تو تلواریں لے کر ہم پر چڑھائی کردیں۔ لیکن یہ دولت تو اہل اللہ کی جوتیاں سیدھی کرنے سے ملتی ہے۔ یعنی ان کی وہ صحبت جواطلاعِ حالات اور اتباعِ تجویزات کے ساتھ ہو طالب کے دل کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسی بہار کو فرماتے ہیں ؎ میں رہتا ہوں دن رات جنت میں گویا مرے باغِ دل میں وہ گلکاریاں ہیںمجلس ۱۲؍محرم الحرام ۱۳۹۹ھ ارشاد فرمایا کہ ہر انسان جو عمل کرتا ہے وہ ان سات قسموں کے اندر ہوتے ہیں:فرض، واجب، سنتِ مؤکدہ، مستحب، مباح، مکروہِ تحریمی، حرام۔ اسی طرح آدمی بھی ۲ قسم کے ہوتے ہیں: عامی یا عالم۔پھر ہر ایک کی تین قسمیں ہیں: عامی عاصی، عامی صالح، عامی مصلح۔ اسی طرح عالمِ عاصی، عالمِ صالح، عالمِ مصلح۔ پس اصلاح کے لیے عالم عاصی محتاج ہوگا عامی مصلح کا۔ اس مثال سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے کہ بعض علماء نے اپنا مرشد غیر عالم تجویز کیا۔ جیسے عالم اگر قاری نہیں ہے تو قراءت سیکھنے میں قاری کا محتاج ہوگا مگر قاری صاحب مسائل میں ہمیشہ عالم صاحب کے محتاج رہیں گے۔ ان اقسامِ مذکور میں جو عالم مصلح ہوتا ہے وہ جامع ہوتا ہے اور محقّق ہوتا ہے ؎ نہ ہر کہ چہرہ برافروخت دلبری داند نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند ارشاد فرمایاکہ معاصی سے نفرت واجب اور عاصی سے نفرت حرام۔ اگر باپ کے اوپر بچے نے پیشا ب کردیا تو باپ کے کپڑوں اور بدن کو ناپاک سمجھو گے لیکن کیا باپ کو حقیر سمجھو گے یا باپ سے نفرت ہوگی ؟یہی مثال گناہ گار کی ہے گناہوں سے نفرت کیجیے مگر گناہ گار کو حقیر نہ جانیے۔ ایک عابد اوپر رہتا تھا، عبادت کا ناز تھا، نیچے اس