مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِمقدمہ حَامِدًا وَّمُصَلِّیًا وَّمُسَلِّمًا،اَمَّابَعْدُ موجودہ حالات میں خصوصاً تبلیغی کوششوں یعنی مسلمانوں کو پورا اور پکّا مسلمان بنانے کی جس قدر اہمیت و ضرورت ہے وہ بالکل ظاہر ہے۔ ہمارے حضرت حکیم الامت مجدّدِ اعظم مولانا تھانوی نوّراللہ مرقدہ ٗنے تو آج سے بہت پہلے ہی رسالہ ’’دعوۃ الداعی ‘‘میں مفصّل اس کی اہمیت کو دلائل کے ساتھ ظاہر فرمایا ہے اور رسالہ ’’تفہیم المسلمین ‘‘میں مختصراً حسب ذیل ارشاد ہے: ’’غور کرنے سے یہ بات ذہن میں آئی کہ اس وقت فضائے زمانہ کا مقتضا یہ ہے کہ احکامِ الٰہیہ کے پہنچانے کا کام ہر شخص اپنے ذمّے لازم سمجھے اور ہر مسلمان اسی دھن میں لگ جائے جیسا ہمارے اسلاف کاطریقہ تھا کہ علماوصوفیا، امراء و رؤساء، امیر و غریب، خواندہ و ناخواندہ سب کو یہی دُھن تھی کہ جتنا جس کو احکامِ اسلام کا علم ہے اس کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔علما وعظ اور تذکیر کرتے تھے، صوفیا اپنی مجلسوں میں نورِ باطن سے اور اپنی پاکیزہ باتوں سے بندگانِ خدا کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے تھے۔ تاجر اپنے معاملات اور باہمی ملاقات میں اس کام کو نہ بھولتے تھے۔الخ‘‘ (ہم لوگ بھی کچھ نہ کچھ اس کام میں لگتے ہیں مگر ہم لوگوں میں اور ان حضرات میں فرق یہ ہے کہ وہ حضرات حدود کے ساتھ اور اس سے واقف ہوکر کرتے تھے اور ہم اندھا دھند اور بے ڈھنگے طریق پر۔ اسی وجہ سے وہ برکات و فوائد حاصل نہیں ہوتے اور مسلمان پکّے اور پورے مسلمان شاذ و نادر ہی بنتے ہیں۔) عمومی تبلیغ کی اہمیت بہرحال معلوم ہوگئی اور بہت سے اللہ کے بندے اس میں مشغول بھی ہیں اور مختلف حلقوں میں مختلف طریقوں سے مختلف جماعتیں کام کررہی ہیں۔چوں کہ مقصود کام ہی ہے لہٰذا کسی کو کسی خاص طریقے کی پابندی لازمی