مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
کرنے کے برابر ہے۔’’سب سے بڑی نیکی شریعتِ اسلامیہ کی ترویج اور شریعت کے کسی حکم کا زندہ کرنا ہے، خصوصاً ایسے زمانے میں جب کہ شعائرِ اسلام مٹتے چلے جارہے ہوں دین کے ایک مسئلے کو رواج دینا اور اس کی تبلیغ کرنا کروڑ ہا روپیہ راہ ِخدا میں خرچ کرنے سے افضل و اعلیٰ ہے،اور مسائلِ شرعیہ کو رواج دینے کی نیت سے ایک کوڑی خرچ کرنا لاکھوں روپیہ خرچ کرنے کے برابر ہے جو اس کے علاوہ کسی دوسری نیت سے خرچ کیے جاویں۔‘‘ (مکتوباتِ حضرت مجّددِ الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ۔ دفترِ اوّل، حصۂ دوم، ص: ۲۱)دوسرا ارشادحضرت حکیم الامت مجدّدِ ملّت مولانا تھانوی کا تبلیغ و وعظ حضرات انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے، درس و تدریس، تصنیف وتالیف اسی کا مقدمہ ہے۔ اصل طریقہ تعلیمِ دین کا جس کے واسطے حضراتِ انبیاءعلیہم السلام مبعوث ہوئے یہی وعظ و ارشاد ہے کہ جس کے ذریعے سے تبلیغِ دین فرماتے تھے باقی درس وتالیف وغیرہ تو اس کے تابع ہے، کیوں کہ سلف میں بوجہ اہتما مِ حفظ و تدیّن صرف زبانی روایت و خطباتِ عامّہ پر قناعت اور وثوق کیا جاتا تھا بعد میں حفظِ علوم کے لیے درس وتالیف کی ضرورت ہوئی، پھر اس حفظ سے ظاہر ہے کہ مقصود دینی تبلیغ و خطابِ زبانی ہے جس کی قسم ِعام کو وعظ کہا جاتا ہے ۔پس مقصود بالذات اس تمام تر اشتعال بالدرس والتالیف سے وعظ ہی ٹھہرا۔الخ۔ بس مقصود بالذات کی اماتت کتنی بڑی خطا ہے۔؎ فائدہ:جس کام کے لیے انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے ہوں اس کی اہمیت اور فضیلت ظاہر ہے۔ ------------------------------