مجالس ابرار |
ہم نوٹ : |
|
بسم اللہ الرحمٰن الرحیممقدّمہ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ!یہ ناکارہ ابرارالحق عرض کرتا ہے کہ ہم لوگوں میں آج کل ایک مرض بہت عام اور روز بروز بڑھتا جاتا ہے، وہ مرض تعدّی حدود یعنی دینی حدود کی رعایت نہ کرنا ہے۔جس کی وجہ سے دو قسم کی کوتاہیاں ظاہر ہوتی ہیں: کہیں افراط یعنی حد سے بڑھ جانا،کہیں تفریط یعنی حد سے کمی کردینا۔ افراط کی کوتاہی غلوفی الدین اور بدعت میں مبتلا کردیتی ہے جو نہایت ہی مضرت رساں اور بڑی گمراہی ہے۔ جس میں آج کل بہت زیادہ ابتلا ہے۔ اور تفریط کی کوتاہی سے اس عمل کے پورے برکات اور فوائد سے محرومی ہوجاتی ہے اور بعض دفعہ بالکل ہی محرومی کا باعث ہوتی ہے جب کہ اس عمل کی شرط یا رکن کا ترک ہوجاوے۔ یہ دونوں کوتاہیاں دین کے ہرشعبے میں ہم سے ہورہی ہیں۔جن کو حضرت مجدّدِ اعظم حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی نوّر اللہ مرقدہٗ نے ’’اصلاحِ انقلاب‘‘ میں نہایت بسط سے مع اصلاح کے بیان فرمایا ہے۔ جو قابلِ دید کتاب ہے۔جس سے حضرتِ اقدس نور اللہ مرقدہٗ کی وسعتِ علم اور دقّتِ نظر کالشمس فی نصف النہار نمایاں نظر آتی ہے۔اس کا خلاصہ حضرت مولانا عبدالباری ندوی مدظلہ العالی نے ’’جامع المجدّدین‘‘ میں ذکر کیا ہے۔یہ کتاب بھی بے نظیر کتاب ہے۔ اس کی افادیت مطالعے سے معلوم ہوسکتی ہے۔ یہ دونوں کوتاہیاں افراط و تفریط کی امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی وعظ و نصیحت عام و خاص میں بھی دیکھی گئیں۔تفریط (کی کوتاہی) تو بہت عام ہے۔جس کی وجہ سے نصیحت کا باب قریب قریب مسدود (بند) ہوگیا ہے جو ہماری ہلاکت اور بربادی کا ایک بڑا سبب ہے۔افراط (کی کوتاہی) کا بھی بہت سے مواقع میں مشاہدہ ہوا کہ بعض وہ صاحبان جن کو کچھ توفیق دینی جدوجہد کی عطا ہوئی وہ حضرات علمائے کاملین پر یہ اعتراض کرنے لگے کہ دین مٹ رہا ہے اور یہ حضرات تبلیغ نہیں کرتے ہیں۔ حالاں کہ وہ حضرات بڑی دینی خدمات میں ہمہ تن مشغول رہتے ہیں۔